انوار الحق کاکڑ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں طویل عرصہ تک نگران وزیر اعظم رہے۔ نگران وزیر اعظم کی مدت دو ماہ یا تین ماہ ہے تاہم آئین میں لکھا ہے کہ جب تک نومنتخب حکومت قائم نہ ہو جائے نگران حکومت قائم رہے گی، لہٰذا کاکڑ صاحب بھی اگست سے فروری تک کم و بیش چھے ماہ نگران وزیر اعظم رہے۔ نگران حکومت کی مدت دو ماہ ہے یا تین ماہ یا چھے ماہ۔ یہ ہمارا موضوع نہیں البتہ گندم بحران میں نگران حکومت کا کتنا ہاتھ ہے یا تھا یہ اصل موضوع ہے۔ انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ بطور وزیر اعظم گندم کی پیداوار دیکھنا ان کی ذمے داری نہیں۔ کیوں بھئی کیوں ذمے داری نہیں؟ وزیر اعظم منتخب ہو یا نگران وہ ملک کا انتظامی سربراہ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ عوام کے مفاد کا خیال نہ رکھے؟ بھٹو کیس‘ اگرچہ اب عدالت عظمیٰ کی ایک رائے یہ سامنے آئی ہے کہ اس کیس میں انصاف کے مواقع انہیں میسر نہیں رہے‘ تاہم عدالت کا فیصلہ ہے کہ بھٹو بطور سربراہ حکومت عام شہری کی زندگی کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے۔ اس کیس میں عدالت کے فیصلے میں شامل یہ جملہ اس بات کا پورا احاطہ کرتا ہے کہ ایک وزیر اعظم کی ذمے داریوں میں کیا کیا چیز شامل ہوتی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ تم سے تمہاری رعیت کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا‘ یہ حدیث مبارکہ صرف حکومتی سربراہ کے لیے نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لیے بھی جس کی رعیت میں لوگ کام کرتے ہوں‘ یہ آجر اور اجیر کا معاملہ بھی ہے۔
ہمارے ہاں یہ بڑی کشمکش رہتی ہے کہ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ سرکاری ادارہ ہو یا نجی ادارہ، اس کا سربراہ بن جائے‘ مگر بطور سربراہ ذمے داری کیا ہوتی ہے اس کا بار اٹھانے کو وہ تیار نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے لیے ربّ العالمین، مالک دو جہاں کے ہاں کیا رکھا ہے‘ اس کا تصور دل میں آتا ہے تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ کاکڑ صاحب کا یہ بیان کہ وزیر اعظم کا یہ کام نہیں کہ وہ دیکھے کہ گندم کتنی پیدا ہوئی‘ کچھ اسی طرح کی سوچ کی نشان دہی کرتا ہے۔ گندم کتنی پیدا ہوئی ہے وزیر اعظم یہ نہ دیکھے مگر یہ تو دیکھے کہ اس کی ناک کے نیچے کون ہے جو ایسے فیصلے کر رہا ہے جس کا براہ راست برا اثر1 عوام پر پڑے گا‘ کاکڑ صاحب فرماتے ہیں کہ چالیس لاکھ ٹن گندم کی قلت تھی مگر نگران حکومت نے34 لاکھ ٹن گندم منگوائی، جناب جب آپ کا اپنا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم کا یہ کام نہیں کہ وہ دیکھے کہ گندم کتنی پیدا ہوئی تو پھر آپ کی حکومت نے یہ کیسے فیصلہ کرلیا کہ قلت کتنی ہے اور گندم منگوانی کتنی ہے؟ اب آپ فرما رہے ہیں کہ صوبائی حکومتیں غلط اعداد وشمار دیتی ہیں اور غلط اعدادو شمار دینے والے آج بھی حکومت میں بیٹھے ہوئے ہیں‘ اگر آپ کے پاس یہ تک معلومات ہیں تو پھر سچ اگلنے میں رکاوٹ کیا ہے؟ اتفاق سے گندم بحران کی باتیں اور اس کے لیے تحقیقات بھی رواں ماہ میں ہو رہی ہیں‘ مئی ہی جناب انوار الحق کاکڑ کی پیدائش کا بھی مہینہ ہے۔ چلیں اسی خوشی میں ہی سچ بول دیں کہ گندم بحران اصل میں ہے کیا؟ کون کون ذمے دار ہے؟ کون وفاقی سیکرٹری‘ کون صوبائی سیکرٹری‘ اس بحران میں ٹریڈ کارپوریشن کا کتنا حصہ ہے؟ کچھ بتائیں تو سہی؟ جب تک سچ نہیں سانے آئے گا آٹے، گندم اور چینی کا بحران ہر سال بڑھتا رہے گا اور یہ کم نہیں ہوگا۔
کاکڑ صاحب آپ کو اس ملک نے بہت کچھ دیا‘ نگران وزیر اعظم کا منصب آپ کو دیا اور آپ سچ بول کر اس ملک کو کچھ بھی نہیں دیں گے؟ اور ہاں یہ بات یاد رکھیں‘ حکومت آپ کی این جی او نہیں ہے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان ہوتے ہوئے بھی آپ جس این جی او کے سربراہ رہے ہیں اور جس طرح آپ اس پلیٹ فارم سے جن کے لیے ’’سچ‘‘ بولتے رہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے۔ آپ ہمت کیجیے، سامنے آئیے اور قوم کے لیے سچ بھی سچ بولیے۔ آپ کے سچ کا فائدہ اس ملک کو بھی ہوگا اور اس قوم کو بھی اور آنے والی نسلوں کو بھی۔
جناب محترم آپ ایک ذمے دار منصب پر رہے ہیں، یہ منصب کوئی بیرسٹری کا کورس نہیں کہ جسے اگر درمیان ہی میں چھوڑ دیا جائے تو زندگی چلتی رہتی ہے۔ آپ گندم کے بحران کے حقائق کی کاشت کے لیے زمین ہموار کریں اور اسے بیرسٹری کی طرح درمیان میں نہ چھوڑیں‘ اگر آپ سچ بول دیں گے تو پھر وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی سچ بولنا پڑے گا‘ صوبائی وزراء اعلیٰ ہو یا نگران صوبائی حکومتیں‘ سب کو سچ بولنا پڑے گا‘ سچ نہ بولنے سے ہی آج ملک بدترین سیاسی، اخلاقی اور سماجی، معاشی بحران کا شکار ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ کرپشن کی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے‘ حضور جب یہ بات آپ کو معلوم ہے تو پھر اپنی منجی کے نیچے ڈانگ کیوں نہیں پھیرتے‘ کیوں اتحادیوں سے ڈرتے ہیں یا اس گروہ سے ڈرتے ہیں جن کی وجہ سے آپ یہاں تک پہنچے ہوئے ہیں‘ سچ کیوں نہیں بولتے کہ کون کرپٹ ہے؟ سچ بھی نہیں بولنا اور حکومت بھی کرتے رہنا ہے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ ایک کام ہوگا آپ سچ بولیں گے یا حکومت سے باہر ہوجائیں۔ سچ بولیں اور ملک میں مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، لاقانونیت اور میرٹ کے قاتلوں کو سزا دیں۔ اگر یہ کام نہیں کریں تو پھر چور چور کا ٹین آپ کے پیچھے بجتا رہے گا اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے سچ بولنا ہے یا عوام کے ہاتھوں سیاسی میدان میں ذلیل ہوتے رہنا ہے۔