اسحاق ڈار نائب وزیر اعظم کیوں؟ اور کیسے؟

553

اس وقت جو ہماری مرکزی حکومت قائم ہے، اس میں طاقت کے تین مراکز کے نمائندے شامل ہیں۔ وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر خزانہ اورنگزیب اور خود وزیر اعظم شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے کہلاتے ہیں وزیر خارجہ اسحاق ڈارجو اب نائب وزیراعظم بھی ہوگئے ہیں، ڈاکٹر مصدق ملک اور ایک دو کوئی اور وزیر ہوسکتے ہیں جو نواز شریف کے نزدیک سمجھے جاتے ہیں باقی وزراء شہباز شریف کے کیمپ کے لوگ سمجھے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شہباز اور نواز شریف کے گروپ الگ الگ ہیں بلکہ تھوڑا سا بیانات میں فرق محسوس ہوتا ہے۔ نواز شریف کے قریب رہنے والے اہم لوگ جس میں جاوید لطیف رانا ثناء اللہ الیکشن تو ہار گئے ہیں لیکن ان حضرات کو اپنی ہار سے زیادہ اس بات کا غم ہے کہ نواز شریف وزیراعظم نہ بن سکے لیکن اس سے بھی زیادہ غم اس بات کا ہے کہ ہماری پارٹی ن لیگ نے جن حالات میں اقتدار لیا ہے اس سے پارٹی کی ساکھ خراب ہونے کا قوی امکان ہے اسی لیے یہ حضرات مخالفانہ بیانات دے رہے تھے اب اس مسئلے کا ایک حل تو یہ نکلا ہے کہ رانا ثناء اللہ کو شہباز شریف کا سیاسی مشیر بنادیا گیا جس کا منصب وزیر کے برابر ہوگا آگے چل کر جاوید لطیف صاحب کو بھی ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے اس سے پہلے بھی پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت میں یہ وزیر بے محکمہ رہے ہیں۔ محسن نقوی کی کارکردگی عبوری دور حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں بہت اچھی رہی انہوں نے جس طرح پی ٹی آئی کو کنٹرول کرکے رکھا ہوا تھا ان کو زیادہ جلسے وغیر نہیں کرنے دیا گیا، اسی اچھی کارکردگی کے پیش نظر انہیں وزارت داخلہ دی گئی اسی لیے انہوں نے اپنی وہ ٹیم مانگی جو پنجاب میں ان کے پاس تھی اور وہ شاید نہیں مل سکی۔

نواز شریف بھی تمام چیزوں کو بڑی باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں ایک طرف تو انہیں اپنی پارٹی کو بچانا ہے دوسری طرف شہباز شریف کی گورنس میں جو مشکلات آرہی ہیں اس میں اپنے بھائی کی مدد کرنا شامل ہے۔ اس لیے گیارہ مئی کو ن لیگ کا جو اہم اجلاس ہونے والا ہے اس میں قوی امکان ہے کہ نواز شریف پارٹی کے صدر بن جائیں اور ہو سکتا ہے وہ خواجہ سعد رفیق کو جنرل سیکرٹری بنالیں اس طرح پارٹی کو فعال کیا جاسکتا ہے۔ رانا ثناء اللہ کو سیاسی مشیر جو بنایا گیا ہے وہ دونوں بھائیوں کی مشاورت سے ہی ہوا ہوگا۔ ایک خدشہ یہ ہوسکتا ہے کہ محسن نقوی اور رانا ثناء اللہ کے درمیان کوئی ٹکرائو ہو جائے، لیکن رانا صاحب بھی ذہین اور سمجھدار آدمی ہیں اور محسن نقوی بدلے ہوئے حالات کے تقاضوں کو اچھی طرح جانتے ہیں اس لیے ایسا ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ نواز شریف کے قریبی چار لوگ تھے جو اتفاق سے الیکشن ہار گئے اس میں رانا ثناء اللہ اور خواجہ سعد رفیق تو کھپ گئے امید ہے کچھ عرصے بعد جاوید لطیف کو بھی لے لیا جائے گا اب ایک خرم دستگیر ہیں جن کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔ اس لیے کہ نواز شریف نہیں چاہتے کہ خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے علاوہ اور کوئی نقصان ہو۔

اتوار کو چھٹی والے دن اچانک اور جلدی میں اسحاق ڈار کے نائب وزیر اعظم کا جو نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے، جبکہ وہ خود وزیر اعظم کے ساتھ سعودی عرب کے دورے پر تھے اس

عجلت کے پیچھے کیا کہانی ہے میں اس پہلو سے سوچ بچار کررہا تھا تو میرے ذہن جو بات یا جو اہم وجہ سامنے آئی اس کو تقویت نجم سیٹھی کے تبصرے سے ملی انہوں نے بھی اسی سے ملتی جلتی باتیں کی ہیں۔ میں جو بات سمجھا ہوں وہ یہ کہ آج کل بلاول زرداری کے نجکاری کی مخالفت میں جو بیانات آرہے ہیں اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید اب پی پی پی بھی حکومت میں شامل ہونے والی ہے اور یہ شاید پی پی پی کا وعدہ بھی تھا کہ وہ بجٹ کے بعد اور بالخصوص نجکاری کے مراحل مکمل ہونے کے بعد حکومت میں آئیں گے اس لیے وہ شاید مخالفانہ بیان دے کر حکومت پر حکومت سازی کرنے والوں پر دبائو بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی کی وزارت حاصل کرسکیں۔ آصف زرداری بھی یہ سوچ رہے ہوں گے کہ انہوں نے پچھلی سولہ ماہ کی شہباز حکومت میں بلاول کو وزیر خارجہ بنوا کر آئندہ وزیراعظم کے لیے جو تربیتی کورس کرارہے تھے اس میں ایک قسم کا بریک لگ گیا۔ دوسری طرف نوازشریف نے مریم نواز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بناکر آئندہ کے لیے وزیراعظم بنانے کی تربیتی کورس کا آغاز کردیا ہے۔ آصف زرداری یہ دیکھ رہے ہیں کہ مریم نواز کی گرومنگ تو ہورہی ہے لیکن بلاول کی گرومنگ نہیں ہو پارہی ہے۔ ہوسکتا ہے نواز شریف کو یہ سن گن مل گئی ہو کہ پی پی پی کے حلقوں میں یہ بات زیرگردش ہے کہ غیر آئینی عہدہ سہی بلاول کے لیے نائب وزیر اعظم کا منصب حاصل کیا جائے پھر بعد میں پی پی پی والے شدت سے اس بیانیے کو آگے بڑھائیں گے کہ آج کا نائب وزیراعظم کل کا

وزیراعظم بھی ہو سکتا ہے اور پوری دنیا میں کسی میٹنگ، کسی کانفرنس یا دورے میں وزیراعظم دیگر مصروفیات کی وجہ سے نہیں جا سکیں گے تو ان کی نمائندگی نائب وزیراعظم کرسکیں گے۔ نوٹیفکیشن نکالنے میں جلدی اس لیے کی گئی کہ کہیں کسی طرف سے کوئی فون نہ آجائے کہ بلاول زرداری کو نائب وزیر اعظم بنا دیا جائے۔

نجم سیٹھی کا تجزیہ تھا کہ چونکہ اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ انوارالحق کاکڑ کی نگران وزیراعظم کے طور پر کارکردگی قابل اطمینان تھی اس لیے ریوارڈ کے طور پر انہیں کوئی اہم منصب ملنا چاہیے پہلے تو کوشش کی سینیٹ کا چیئرمین بنادیا جائے لیکن اس میں پیپلز پارٹی اپنا بندہ لے آئی ان کے لیے اور بھی کچھ سوچا گیا لیکن منی اتنی بدنام ہوچکی ہے کہ وہ کسی جگہ زیادہ دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔ ہوسکتا ہے کہ ن لیگ کو یہ خدشہ ہو کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے یہ تجویز نہ آجائے کہ کاکڑ کو نائب وزیراعظم بنادیا جائے۔ اس لیے ن لیگ کسی صورت یہ نہیں چاہتی کہ وزیراعظم کے بعد والا اہم منصب (چاہے وہ غیر آئینی ہی سہی) کسی اور کو دیا جائے۔ اب یہ صورت بنے گی کہ اگر پیپلز پارٹی حکومت میں شامل ہوتی ہے تو بلاول کے لیے کوئی اہم وزارت مانگے گی یا پھر نائب وزیراعظم کی مانگ ہوگی۔ ن لیگ وزیر خارجہ دینے پر راضی ہوگی کہ اس وزارت سے ڈار صاحب زیادہ خوش بھی نہیں ہیں اور یہ کہ خارجہ پالیسی بھی کوئی اور بناتا ہے اس لیے بلاول کو وزیر خارجہ بنا دیا جائے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کاکڑ صاحب کو وزیرخارجہ بنادے اور ن لیگ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا بلکہ وہ بہت خوشی خوشی راضی ہو جائے گی کہ اس کے نزدیک وزیر خارجہ کے لیے بلاول زرداری سے زیادہ بہتر انوارالحق کاکڑہوں گے۔