ہمارے معاشرے میں منشیات کی لعنت کا بڑھتا ہوا رجحان اور نفسیاتی مسائل کسی سنگین خطرے سے خالی نہیں، منشیات ایک ایسی لعنت ہے جو سکون کے دھوکے سے شروع ہوتی ہے اور زندگی کی بربادی پر ختم ہوتی ہے۔ حکومت اور دیگر نجی اداروں کو منشیات کے علاج معالجے اور اس کی روک تھام کے لیے ہنگامی بنیاد پر کام کرنا ہو گا، خطرے کی بات یہ ہے کہ منشیات کی لعنت تعلیمی اداروں اور اَپر کلاس میں ایک فیشن کے طور پر سامنے آ رہی ہے جس کے دور رس انتہائی مضر اثرات نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آج 10 ملین متاثرین نئے ناموں سے نشہ کا استعمال کر رہے ہیں، نشے کے یہ عادی مریض اور ان کے حوالے سے مرکزی و صوبائی حکومتوں کے پاس مختص بجٹ نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی جو کہ ایک المیہ ہے، لہٰذا مرکزی و صوبائی حکومتیں ڈینگی کی طرح اس کی طرف بھرپور توجہ دیں۔ تحقیق کے مطابق نشہ میں مبتلا افراد کی بڑی تعداد کی عمر 25 سے 31 سال تک ہے جبکہ دوسرا بڑا حلقہ 15 سال سے 24 سال تک عمر کا ہے، پاکستان میں جس نشے کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے وہ چرس ہے جبکہ منشیات کا 80 فی صد استعمال مرد کرتے ہیں اور 20 فی صد خواتین ہیں۔
پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق، اس وقت منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 70 لاکھ کے قریب ہے، جن میں اکثریت نو جوانوں کی ہے۔ آئے روز اخبارات اور میڈیا کے دیگر ذرائع میں رپورٹ ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ہیروئین کا سالانہ استعمال امریکا کی نسبت تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔ منشیات کے باعث ہونے والی سالانہ اموات کی تعداد بھی 700 سے تجاوز کر چکی ہے۔
شیشہ پینا اب مخلوط محفلوں میں فیشن بن چکا ہے۔ لڑکیوں میں بھی شیشے کا رجحان بہت بڑھ چکا ہے۔ گو کہ حکومت نے اس پہ پابندی لگا رکھی ہے، مگر یہ سب ایک عام سی پان، سگریٹ کی دکان سے بھی اب با آسانی دست یاب ہو جاتا ہے۔ جس کی دسترس جہاں تک ہے، وہ اس حساب سے منشیات کا استعمال کرتا ہے۔ متوسط طبقے کے نوجوان اگر فارماسوٹیکل ڈرگز پر انحصار کرنے لگے ہیں، جن میں مختلف قسم کی ادویات کو بہ طور نشہ استعمال کیا جاتا ہے تو بالائی طبقے کے افراد میں کرسٹل، ہیروئین اور کوکین کے ساتھ کیمیکل ڈرگز کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔ جدید ادب، شاعری اور فلموں میں منشیات کے استعمال کو ایک ایسے طریقے سے بڑھاوا دیا جاتا ہے کہ نوجوان اس کا اثر لینے لگتے ہیں۔ اور غیرمحسوس طور پر یہ بات ان کے نا پختہ اذہان میں بیٹھ رہی ہے کہ منشیات کا استعمال ذہین، دانشوروں اور مفکروں کا وتیرہ ہے۔ نئی نسل معاشرتی ردعمل اور درست رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے نشے کو اپنا رہی ہے۔ جب تک منشیات کے بڑھنے کے اسباب و محرکات کو ختم نہیں کیا جاتا، تب تک اس کے خاتمے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ نوجوانوں میں منشیات کو کم کرنے کے لیے سول سوسائٹی، والدین، اساتذہ اور حکومت کو مل کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تا کہ مل جل کر آنے والے کل کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔
حرا محمد عالم
کراچی یونیورسٹی شعبہ سیاسیات