مشکل یہ آن پڑی ہے کہ بہت سے رہنماؤں، اعلیٰ عہدیداروں وغیرہ کا نام لیکر ان میں موجود کسی کمی، کوتاہی یا کمزوری کی نشان دہی کی جائے تو معاملہ ’’ہتک عزت‘‘ میں شمار کر لیا جاتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ ممکن ہے کہ یہ بات اتنی حساس نہ سمجھی جاتی ہو لیکن یہاں ایسا کرتے ہی زلزلے کے شدید جھٹکے آنے لگتے ہیں۔ اس لیے یہ بات ضروری ہو جاتی ہے کہ ایسے تمام رہنماؤں، اعلیٰ سرکاری عہدیداروں اور کرتا دھرتاؤں کا نام لیے بغیر بات کی جائے۔ مثلاً کسی کو نادیدہ مخلوق کا سربراہ کہہ دیا جائے، کسی کو بانی کہہ دیا جائے اور کسی کو احتراماً ’’چیئر مین‘‘ کہہ کر جو مرضی آئے باتیں سنادی جائیں۔ کتنا عجیب مذاق ہے کہ اگر بلا واسطہ، بغیر میٹھا غلاف چڑھائے یا نام لیے اگر کوئی بات کہہ دی جائے تو ’’کوئی‘‘ بات نہیں، لیکن اگر نام لیکر وہی بات کہہ دی جائے تو عدالتیں رات کے بارہ بجے بھی کھل سکتی ہیں۔ بس اسی خوف کی وجہ سے میں نام لیے بغیر ’’بانی بحریہ ٹاؤن‘‘ کی خدمت میں کچھ باتیں عرض کرنے کی جسارت، بلا نہیں بلکہ با خوف و خطر، کرنا چاہتا ہوں اور لوگوں سے دست بستہ گزارش کرتا کہ وہ میرے حق میں دعائیں ضرور کریں کہ کہیں بحریہ ٹاؤن کا رہائشی ہونے کے کارن، یہاں کی انتظامیہ مجھے بطورِ سزا ایک اور ہجرت پر مجبور نہ کر دے۔ بانی بحریہ ٹاؤن بے شک شہر بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ بلا شبہ انہوں نے جہاں جہاں بھی نئے نئے شہر بنائے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی طرزِ تعمیر اور بہت آگے تک کی منصوبہ بندی دیکھ کر بلا تکلف یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ بہت دور تک دیکھنے میں کمال رکھتے ہیں۔ دیگر بلڈرز کی طرح شاید صرف پیسہ کمانا ہی ان کے سامنے نہیں ہوتا بلکہ جو لوگ ان کے بنائے شہروں میں آباد ہونا چاہتے ہیں، ان کی صحت و صفائی کا خیال دولت کمانے سے زیادہ انہیں عزیز ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے وہ اپنے بنائے جانے والے شہروں میں کشادہ سڑکیں بناتے ہیں۔ پانی و بجلی کا بہترین نظام بناتے ہیں۔ تفریح گاہیں تعمیر کرتے ہیں، ہر جانب سبزہ اٹھاتے ہیں۔ جگہ جگہ درخت لگاتے ہیں اور صفائی کا بہترین طریقہ کار وضع کرتے ہیں۔ اپنے شہر کی انتظامیہ بھی وہ خود ہی تشکیل دیتے ہیں جس کی وجہ سے بہت کم بد انتظامی دیکھنے میں آتی ہے۔ بازاروں کی جگہیں الگ ہیں، گاڑیوں کی پارکنگ ایریاز کشادہ ہیں، مارکٹوں پر مکمل کنٹرول ہونے کی وجہ سے کوئی دکاندار اپنی حدود سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ شاہراہوں کا مطلب شاہراہیں ہی ہے، کاروبار کے مراکز نہیں۔ سروس روڈ پارکنگ ایریاز نہیں اور گلیاں اس لیے نہیں کہ گھر والے اپنی کاریں یا موٹر سائیکلیں ان میں پارک کرکے آنے جانے والوں کے لیے مشکلات کھڑی کریں۔ ان تمام باتوں کے باوجود بانی بحریہ کے متعلق میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ بلا شک و شبہ شہر بنانے کے بہت ماہر ہی سہی لیکن شہروں کا بسانا شاید ان کے قریب
سے بھی نہیں گزرا۔ یہ بات یوں ہے جیسے کسی مکان کا بنا لینا بالکل الگ بات ہے لیکن اس کو بسانا بالکل مختلف بات۔ مکان کا مکان کہلانا اور مکان کا گھر کہلانا، زمین آسمان کا فرق رکھتا ہے۔ کوئی بھی مکان اس وقت تک گھر نہیں کہلا سکتا جب تک اس گھر کے افراد مکمل طریقے سے مطمئن اور خوش حال نہ ہوں، ایک دوسرے کو سمجھتے نہ ہوں اور انسانوں کی طرح نہ رہتے ہوں۔ ایسا مکان جس میں سب ایک دوسرے کے کپڑے اتار رہے ہوں، ناخوش ہوں اور ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہوں وہ جہنم تو کہلا سکتا ہے گھر نہیں۔ جس طرح ہر مکان گھر نہیں کہلا سکتا اسی طرح شہر بنانے اور بسانے میں بہت فرق ہے۔ بانی بحریہ صاحب، آپ شہر بنانے میں بے شک بہت طاق سہی لیکن بسانے میں آپ سو فی صد ناکام ہیں۔
شہر بسانے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں ضروریات کی ہر شے نہ صرف میسر ہو بلکہ وہاں بسنے والوں کے لیے شہری سہولتیں، جن میں ہر قسم کی ضروریاتِ زندگی شامل ہوں، ان پر گہری نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے جبکہ آپ کی بنائے شہروں میں اول تو بنیادی ضرورتوں ہی کا فقدان ہے اور جس جس نے بھی وہاں اپنی اپنی دکانیں کھولی ہوئی ہیں وہ اتنے مختارِ کل بنے ہوئے ہیں کہ وہ فروخت کی جانے والی اشیا کے نرخ عام بستیوں سے دو گنا رکھیں یا تین گنا، جیسے ان کو پوچھنے والا کوئی بھی نہیں۔ کسی بھی شہر کے باقی حصوں کی بات چھوڑیں، بحریہ ٹاؤن کے گیٹ کے باہر کسی بھی خدمت گار کی خدمت کا نذرانہ یا اشیا کی قیمت بحریہ ٹاؤن کے گیٹ کے اندر کا فرق ہی اتنا زیادہ ہے کہ انتظامیہ پر شک گزرنے لگتا ہے۔ شہر بنا کر بسانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہاں ہر سہولت تمام شہر کے مطابق ہو، ہر قسم کی چھوٹی بڑی دکانیں، ورکشاپ، خدمت کرنے والے شعبے، جیسے ڈاکٹرز، حکیم، نائی اور دھوبی وغیرہ ہوں اور یہ لوٹ مار مچانے والے بھی نہ ہوں، مکانات کی خرید و فروخت کا طریقہ کار سہل ہو، انتظامیہ رہائشیوں کا خیال رکھنے والی ہو ناکہ تجارتی مراکز پر چھائے ہوئے منافع خوروں کا خیال رکھنے والی ہو اور ان سب سے بڑھ کر ہر قسم کی ٹرانسپورٹ کی فراوانی ہو۔ جس شہر میں چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے والے نہ ہوں، تاجروں کو من مانیاں کرنے کی مکمل آزادی ہو، ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہر رہائشی قیدیوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہو تو شہر بننے کے بعد جیل خانہ تو نظر آ سکتا ہے آباد نہیں۔ اسے لیے بانی بحریہ ٹاؤن سے گزارش ہے کہ وہ اپنی انتظامیہ پر نظر رکھیں، جب تک ان کے کان آپ کی انگشت ِ شہادت اور انگھوٹھوں کے درمیان دبے ہوئے نہیں ہوں گے، وہ رہائشیوں کے لیے عذاب بنے رہیں گے اور رہائشی آپ کے لیے بجائے دعائیں دینے کے، دہائیاں ہی دیتے نظر آئیں کے۔ امید ہے بانی بحریہ ٹاؤن ان باتوں پر ضرور نظر رکھیں گے اور بہترین انداز میں تعمیر کیے ہوئے شہر بہترین رہائشی نمونہ بھی بن سکیں گے۔ کسی شاعر نے شاید یہ شعر بانی بحریہ ٹاؤن کے لیے ہی کہا تھا کہ
دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسانا کھیل نہیں ہے بستے بستے بستی ہے