چیف جسٹس پاکستان فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پر برہم

304

 اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اگر فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جاتا تو شاید 9 مئی کا واقعہ بھی نہ ہوتا۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پڑھ کر سنائی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں سمجھ نہیں پا رہا کس لیول کے ذہن نے یہ رپورٹ تیار کی ہے، کمیشن کو معلوم ہی نہیں ان کی ذمہ داری کیا تھی، انکوائری کمیشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کردی، دھرنے سے پاکستان کا کتنا نقصان ہوا، کسی کو پروا ہی نہیں، آگ لگاؤ، مارو یہ اب کچھ لوگوں کا حق بن گیا ہے، پاکستان بنا تھا بتائیں کہیں کسی نے آگ لگائی تھی؟ یہاں ہر جگہ بس آگ لگا دو والی بات ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے کمیشن کو بتایا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اگر ان کی ذمہ داری نہیں تو پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کس طرح کی رپورٹ کمیشن نے بنائی ہے کمیشن کے دیگر ممبران کہاں ہے؟ ایک پیراگراف میں کہہ رہے ہیں آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں، آگے پیراگراف میں لکھ رہے ہیں ٹی ایل پی کے مالی معاونت کے ثبوت نہیں ملے۔

دوران سماعت فیض آباد دھرنا کمیشن ممبران میں سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔