اے ابن آدم آج مہنگائی اپنے عروج پر ہے سفید پوش خاندانوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔ غریب تو مانگ کر بھی اپنا گزارہ کرسکتا ہے مگر سفید پوش تو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا مگر پاکستانی قوم پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ وہ 76 برس سے حالات کا مقابلہ کررہی ہے، اس مرتبہ عید کے موقع پر اربوں روپے کی خریداری ہوئی، شاپنگ مالز میں پائوں رکھنے کی جگہ تک نہیں تھی اور ہزاروں سفید پوش خاندان نئے کپڑوں کو ترستے رہے۔ میری تحریک ابن آدم، انمول فائونڈیشن اور ڈاکٹر منیر منشی ویلفیئر ٹرسٹ سفید پوش افراد کو تلاش کرکر کے اُن کے لیے نئے کپڑوں کا اہتمام کرتے رہے، اس کے علاوہ سماجی رہنما زاہد رحیم بھائی جو ضرورت مندوں کے مفت آنکھوں کے آپریشن کرواتے ہیں، ہر سال کی طرح اس سال بھی سفید پوش گھروں میں 5 ہزار سے لے کر 10 ہزار تک فی خاندان کے حساب سے تقسیم کرتے نظر آئے۔ محترمہ بابرا اسماعیل بھی کئی سال سے ضرورت مند خواتین کو نقد اور راشن کی تقسیم کرتی ہیں۔ سندھ یونین آف جرنلسٹ کی مرکزی قیادت ارشاد ایم خان، فضل رزاق بابو، شہزاد خان اور شہزاد بٹ سفید پوش صحافیوں کی خاموشی سے داد رسی کرتے نظر آئے۔ اے ابن آدم ہماری معاشرتی و سماجی کی ویسے تو بے شمار وجوہات ہیں مگر اہم چیز سادگی ہے جو ہم اختیار نہیں کرتے۔ دوسری ریاکاری، عدم برداشت، منافقت، پورے ملک نے دیکھا کے منصورہ میں دو عظیم رہنما کتنی سادگی اور اخلاق کے ساتھ اختیارات کو منتقل کرتے نظر آئے۔ سادگی کا پیکر سراج الحق حافظ نعیم الرحمن کو حلف لینے کے بعد پیار سے گلے لگاتے ہیں۔ دونوں کی آنکھیں اشکبار جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جس میں امیر کا فیصلہ ارکان کے ووٹ پر ہوتا ہے۔ اقتدار کے حصول کے لیے کوئی سازش نہیں ہوتی۔
ایم کیو ایم، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی میں منافقت، عدم برداشت، ریاکاری بھری ہوئی ہے۔ بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے شوریٰ کے طرز پر رابطہ کمیٹی تشکیل دی تھی مگر محلاتی سازش، اختیار کی جنگ منافقت اور عدم برداشت نے کراچی کی مقبول جماعت کو تقسیم در تقسیم کردیا مگر جب ہوش آیا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ مسلم لیگ بے شمار ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی جلد ایک اور مسلم لیگ مارکیٹ میں آنے والی ہے۔ بس نام کیا رکھنا ہے وہ انتظار ہے۔ پیپلز پارٹی بھی زرداری صاحب کی پارٹی بن چکی ہے۔ خیر اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ سینئر صحافی عبداللہ فاروقی نے جہیز کے حوالے سے ایک ایسی پوسٹ لگائی کہ دل کٹ سا گیا۔ ایک باپ بیٹی کو کتنے پیار، محبت، محنت سے پرورش کرتا ہے اور جب بیٹی رخصت ہو کر سسرال جاتی ہے تو اہل محلہ کی خواتین دلہن کو دیکھنے آتی ہیں اُن میں سے ایک عورت نے پوچھا: ’’ارے بہن تمہاری بہو کتنا جہیز لے کر آئی‘‘۔ یہ ہے وہ اصل لعنت جہیز جس نے ہماری اسلامی معاشرے کی اشکال کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ باپ کتنی محنت سے بیٹی کی تعلیم و تربیت کرتا ہے جس میں ماں کا اہم کردار ہے، پھر پال پوس کر اپنے لخت جگر کو غیروں کے حوالے کردیتا ہے، اس دعا کے ساتھ کہ اس کی بیٹی صدا خوش و خرم رہے۔ ماں کہتی ہے بیٹا اب اصل گھر تمہارا وہ ہے جہاں تم رخصت ہو کر گئی ہو، اس گھر کے دروازے تم پر کھلے ہیں مگر شوہر سے ناراض ہو کر نہیں آنا۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں ہزاروں لڑکیاں اپنے شوہروں کے ظلم برداشت کررہی ہیں، سسرال والوں کی زیادتی برداشت کررہی ہیں، ظالم سسرال والے یہ نہیں سوچتے کہ یہ جو ان کے گھر میں بہو بن کر آئی ہے وہ بھی کسی کی بیٹی ہے، پھر جب ان کی اپنی لڑکی بیاہ کر جاتی ہے اور اس کے سسرال میں بھی وہی عمل ان کی بیٹی کے ساتھ ہوتا ہے تو روتے ہیں مگر یہ تو مکافات عمل ہے مگر سب اس چیز کو نہیں سوچتے۔ کاش ہر بیٹی والا اس فلسفے کو سمجھ لے تو ایک بڑی معاشرتی برائی سے بچا جاسکتا ہے۔
آج کے معاشرے میں ایک بڑی خرابی اور دیکھی جارہی ہے، نام نہاد مولوی چینل پر آکر لوگوں کو گمراہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک مولوی فرما رہے تھے کہ ساس، سسر کی بہو پر کوئی ذمے داری نہیں، اس کو اپنے شوہر کی خدمت کرنی ہے۔ ارے مولوی صاحب یاد رکھیں یہ جو شادی کے بعد نیا رشتہ بنتا ہے اس میں بہو کی ماں کی جگہ ساس اور باپ کی جگہ سسر ہوتا ہے اور ساس سسر کو بھی اپنا کردار ایمانداری سے ادا کرنا چاہیے۔ داماد کو بھی بیٹا بن کر رہنا چاہیے۔ مہندی، مایوں جیسی رسوم کا اسلامی معاشرے سے کوئی تعلق نہیں، یہ ہندو رسوم ہیں مگر ہمارے ملک میں ان رسوم پر لاکھوں روپے اور قیمتی وقت برباد کیا جاتا ہے۔ فوٹو گرافی اور مووی نے الگ تباہ کردیا ہے، دولہا، دلہن اور خاندان والے اللہ کے احکام کو نظر انداز کرکے فوٹو گرافر کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں، شرم و حیات تو معاشرے سے چلی گئی ہے۔ ماضی میں دلہا رخصتی تک دلہن کو ہاتھ تک نہیں لگاتا تھا مگر فوٹو گرافر حضرات نے تو معاشرے کو تباہ کرنے میں کوئی کسر تک نہیں چھوڑی۔ میں جلد معاشرتی برائیوں کے خلاف اور اخلاق، اخلاس کو عام کرنے کے لیے اپنا چینل بنانے کا ارادہ کرچکا ہوں، یہ معاشرتی جہاد ہے مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ میں زیادہ تو نہیں مگر کچھ نہ کچھ کرکے ضرور دنیا سے جائوں گا۔
شادی میں کھانے کے حوالے سے بھی بات کرنی ہے، اللہ کا رزق ان تقریبات میں بے پناہ ضائع ہوتا ہے، اس کی وجہ بے شمار ڈشیں ہوتی ہیں جو تقریبات میں موجود ہر مہمان کھانا چاہتا ہے جس کی وجہ سے رزق ضائع ہوتا ہے اگر حکومت اور ہم سب مل کر ون ڈش کے فارمولے پر عمل کریں تو پیسہ بھی بچے گا اور اللہ کا رزق بھی ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ مجھے وہ وقت یاد ہے میں 8 سال کا ہوتا تھا اس زمانے میں 1500 کی پوری گائے اور 120 روپے کا بکرا آجاتا تھا۔ شادی کی تقریبات دن میں ہوتی تھیں، بجلی کا بھی کوئی خرچ نہیں ہوتا تھا، عوام نے کبھی بجلی چوری کرنے کا سوچا بھی نہیں تھا، ایک گھر کا کفیل کماتا تھا اور پورا کنبہ پلتا تھا۔ آج برکتیں ختم ہوگئی ہیں، پورا گھر کما رہا ہے مگر پھر بھی رونا لگا رہتا ہے، ہوس بڑھ گئی ہے، آج ہر آدمی کے پائوں چادر سے باہر نکل گئے ہیں، اوپر سے ہمارے ملک میں جاری ظلم کا نظام جہاں غریب 10 طرح کے ٹیکس دے رہا ہے، ملک کی اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی، اشرافیہ عیش کررہے ہیں، سیاست دانوں نے تو عیاشیوں کے ریکارڈ توڑ کر رکھ دیے۔ میرے وطن کے نوجوانوں تم اس ملک کا سرمایہ ہو غلط کو غلط کہنا سیکھوں۔ سچ کا ساتھ دو۔ معاشرتی مسائل کو حل کرنے میں قوم کی مدد کرو، اس پاک دھرتی کا ہم پر قرض ہے، خود بھی سادہ زندگی گزارو اور گھر والوں اور خاندان والوں کو بھی سادگی کا درس دو۔ یہ وطن تمہارا ہے، امید کی شمع کو روشن کرو۔ آخر میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے ایک لاکھ سے ایک کروڑ ناقابل واپس قرض دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں کتنی نیک نیتی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا مگر کراچی کے بے روزگار نوجوانوں تم اس سہولت سے فائدہ اٹھائو کاروبار کرو، محنت کرو، ترقی تمہارے قدم چومے گی۔