سود کا خاتمہ اور زکوٰۃ کے نظام کا قیام

535

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کہتے ہیں کہ ملک میں سودی نظام حکومت کے خاتمے کا مرحلہ وار سلسلہ جاری ہے اور اس کے لیے شریعت کورٹ نے عمل کا وقت پانچ سال دیا ہوا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ شریعت کورٹ نے سود کے خاتمے کے لیے پانچ سال کا ٹائم فریم کب دیا تھا۔ شریعت کورٹ نے سب سے پہلے 14 نومبر 1991ء میں سود کے خاتمے کی تاریخ فیصلہ دیا تھا۔ اس شریعت عدالت کے چیف جسٹس تنزیل الرحمن نے فیصلہ سناتے ہوئے سود اور سودی نظام کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ عدالت نے اس وقت کی حکومت (اس وقت نواز شریف کی حکومت تھی) کو سودی قوانین کو متبادل قانون سازی کے لیے چھے ماہ کی مہلت دی تھی۔ کچھ ماہ حکومت اور حکومتی مالیاتی ادارے خاموش رہے اور جب چھے ماہ ختم ہونے کا وقت آیا تو اس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کردیں۔ نواز شریف خود بھی سود خوری کی تائید میں عدالت عظمیٰ اپیل لے کر پہنچ گئے۔ اگلے سات آٹھ سال نظرثانی کی اپیلیں سماعت نہ ہوسکیں۔ جماعت اسلامی اور دیگر مدعیوں نے آواز اٹھائی جس کی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ حکومت سودی اسکیموں کے تحت کام کرتی رہی اور اندرون ملک اور بیرون ملک سود پر قرضے حاصل کرتی رہی۔ ساڑھے سات سال بعد مارچ 1999ء میں سود کے خلاف بالآخر سماعت کا آغاز ہوا، معروف وکلا، قانونی ماہرین اور جید علما اس بحث میں شامل ہوئے۔ پروفیسر خورشید نے بتایا کہ پوری دنیا میں سودی نظام ختم ہورہا ہے۔ آئندہ نصف صدی میں یہ پوری دنیا میں ناکام ہوجائے گا۔ دنیا بھر کے اقتصادی ماہرین جس نئے مالیاتی نظام پر متفق ہو رہے ہیں وہ اسلامی نظام زر سے بہت قریبی مماثلت رکھتا ہے۔ اب جبکہ فیصلہ آنے کو تھا پرویز مشرف سد ِ راہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ 10 سال کی جدوجہد کو مشرف نے ملیا میٹ کرکے دوبارہ عدالت بھجوا دیا۔ اس کے بعد 15 سال تک 3 حکومتیں آئیں، پہلے مشرف پھر آصف زرداری اور پھر نواز شریف کی حکومتوں نے مقدمے کی سماعت نہ ہونے دی۔ سود کی حمایت میں وکیل محمد اکرم راجا نے قرآنی آیات کی خود ساختہ تفسیر پیش کرتے ہوئے سود کو جائز قرار دیا۔ شریعت کورٹ میں سود کا مقدمہ قدیم ترین مقدمات میں شامل ہے۔ اس کیس کو چلتے ہوئے آج 34 سال ہورہے ہیں۔ اگر اس کے فیصلے کو نافذ کیا جاتا تو ملک اس قدر بری طرح سودی قرضوں میں جکڑا نہ ہوتا۔ 2017ء میں اس کیس کی چوتھی مرتبہ سماعت شروع ہوئی۔ 2018ء تک نواز شریف کی حکومت تھی جنہوں نے سودی معیشت کے خاتمے کی تحریک کے خلاف ہر ممکن تدبیر کی۔ 2018ء کے بعد عمران خان نے حکومت سنبھالی، ان کے رویے سے بھی ظاہر تھا کہ وہ سود کو ختم کرنے کے بجائے اس مقدمے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا ان کی حکومت میں سرکاری وکیل نے شریعت عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کردیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ شریعت عدالت اس کیس کو سننے کا اختیار ہی نہیں رکھتی۔ عمران خان کی حکومت کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کرنے کا دوسرا ثبوت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا رویہ تھا۔ ایک دفعہ باقاعدہ عدالت نے پوچھا کہ اسٹیٹ بینک تاخیری حربے کیوں استعمال کررہا ہے۔ اب دیکھیں کہ وزیراعظم اور ان کے وزیر خزانہ خلوص نیت کا اظہار کرتے ہیں یا نہیں۔ جبکہ پانچ سال کی مہلت عمل میں سے دو سال گزر چکے ہیں۔ جماعت اسلامی نے سود کے خلاف اور سودی معیشت کے خاتمے کے لیے طویل جدوجہد کی اور حکومتوں پر عوامی دبائو ڈالتی رہی۔ عدالتوں میں سال ہا سال پیش ہوتی

رہی، دلائل کی جنگ کے ساتھ متبادل غیر سودی نظام کی تشکیل خورشید احمد برسوں قبل کرچکے تھے اور حکومتوں کے حوالے بھی کیا لیکن انہوں نے سود کے ساتھ کھڑے رہنے کو ترجیح دی۔ اپریل 2022ء میں اللہ کا شکر ہے کہ آخر کار وفاقی شریعت عدالت نے سود کے خلاف تفصیلی دلائل سن کر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے فرید احمد پراچہ کی یہ درخواست منظور کی کہ 27 رمضان میں پاکستان بنا تھا، سود کے خاتمے کا متوقع فیصلہ بھی 27 رمضان ہی کو سنا جائے جس عدالت نے منظور کرلیا۔ سود کے خاتمے کو نہ ماننے والے جو حکمران بھی تھے۔ انہوں نے اللہ کی ناراضی تو مول لی ہی ساتھ ہی مکافات عمل کا بھی شکار ہوئے۔ پچھلی حکومت میں جماعت اسلامی کے واحد رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے سود کے نقصانات پر بات کرتے ہوئے کہا تھا 2013ء سے 2018ء تک پاکستان پر چوبیس ارب بتیس کروڑ روپے سود واجب الادا تھا جو اب بڑھ کر تین ہزار ارب ہوچکا ہے۔ سود کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا پورا دفاعی بجٹ سود کی سالانہ قسط کی ادائیگی کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔ سود کی ادائیگی کے لیے ہر گزرتے سال کے ساتھ بجٹ میں مختص رقم بڑھ رہی ہے۔ جلد مستقل قریب میں صورت حال یہ ہوگی کہ پاکستان کا سارا بجٹ ہی سود کی ادائیگی میں جائے گا۔ عدم ادائیگی پر ڈیفالٹ کا خطرہ سر پر الگ لٹکتا رہے گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کو سودی قرضوں کے جال میں پھانس کر کمزور کیا گیا، پاکستانی حکمرانوں نے لالچ اور کرپشن کے لیے قرض پر قرض لیا۔ جس پر سود کی ادائیگی بڑھتی گئی۔ کمزور پاکستان سے اپنی مرضی منوانا آسان ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ حکمران اسرائیل کے لیے منہ میں زبان نہیں رکھتے، فلسطینی بچوں، عورتوں اور مردوں کا قتل عام انہیں فلسطینیوں کی ہمدردی میں ایک لفظ بولنے پر آمادہ نہیں کرتا۔ کرکٹ کے میدانوں پر فلسطینی جھنڈا لہرانا انہیں جرم نظر آتا ہے۔ میکڈونلڈ جو فخریہ اسرائیل کی فوج کو فری سپلائی کا اعلان کرتی ہے۔ اس کے برگر اور پیپسی مریم نواز اسکول کے دورے میں بچوں کو فراہم کررہی ہیں، یعنی فلسطینیوں کی حمایت میں انہیں اپنے آقائوں کی طرف سے بائیکاٹ تک کی اجازت نہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ آج آئی ایم ایف جو مہربان ہے تو اس کے پیچھے پاکستان سے اسرائیل کی حمایت اور نرم گوشہ چاہتا ہے۔ اس وقت حکومت کے پاس قرض کی ادائیگی کے لیے یا تو ملکی اداروں کی نجکاری (فروخت) کا منصوبہ ہے یا ٹیکس میں اضافے کا۔ جس سے بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہی ہوا ہے اور مزید ہونے کا امکان ہے۔ سادہ سی بات ہے آبادی میں قوت خرید بڑھتی ہے تو جی ڈی پی میں اضافہ لازمی ہوتا ہے۔ اس اصول کے تحت اسلام میں زکوٰۃ کا نظام موجود ہے جس کے ذریعے آبادی کے ایک حصے سے لے کر دوسرے حصے تک سرمایہ گردش کرتا ہے۔ یوں غریبوں کو وسائل فراہم کرکے اُن کی قوت خرید بڑھائی جاتی۔ اس وقت ہماری آبادی کا تقریباً نصف حصہ غربت کی لکیر سے نیچے آچکا ہے۔ ان کے پاس اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے آمدنی نہیں اور نہ ہی حالات کو بہتر بنانے کے لیے کوئی راستہ ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، ریاست مدینہ کی پیروی کرتے ہوئے سود کے نظام کا خاتمہ اور زکوٰۃ کے نظام کو قائم کیا جائے تو معاشرے کے غریب اور نادار طبقے کو اوپر اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس نظام کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، ہاں البتہ امین و صادق قیادت درکار ہے جو پاکستان میں موجود وہ بھی وہ جو باقاعدہ عدالت عظمیٰ سے سند یافتہ ہے۔