چندا ماموں ہم آ رہے ہیں

513

خبر یہ ہے کہ ’’پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن خلا میں بھیج دیا گیا ہے‘‘۔ چاند پر یہ سیٹلائٹ مشن ’آئی کیوب قمر‘ چین کے ہینان اسپیس لانچ سائٹ سے روانہ ہوا۔ ہینان سے مشن کی روانگی پر سپارکو میں جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے جہاں سپارکو کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر میں تالیاں بجائی گئیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے رکن کور کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کا سیٹلائٹ مشن 3 سے 6 ماہ تک چاند کے اطراف چکر لگائے گا۔ سیٹلائٹ کی مدد سے چاند کی سطح کی مختلف تصاویر لی جائیں گی‘‘ امریکا بہت پہلے چاند سے بالمشافہ ملاقات کرچکا۔ روس اور چین بھی عرصہ پہلے لنڈے کی جیکٹ پہن کر چاند پر اچھل کود کرآئے۔ ہم نے کبھی ان ’’حماقتوں‘‘ کا نوٹس نہیں لیا۔ برا ہو ہمارے ازلی دشمن بھارت کا اس کو بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی کہ وہ بھی چاند پر پہنچ گیا۔ ہم کسی اور کی حرکتوں پر غصہ نہیں کرتے لیکن بھارت پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ بھارت کے خلائی مشن کو ہم ہرگز برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ جس دن ہمیں پتا چلا کہ بھارت نے چاند پر پہنچنے کی حرکت کی ہے اس دن سے ہمارے سائنسدانوں کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں۔ ہمارے سائنسدانوں نے دن رات کی محنت شاقہ سے بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کا سوچا اور بالآخر چین کی مہربانی سے ایک عدد سیٹلائٹ چاند کی طرف روانہ کردیا۔ (یہ تحریر شائع ہونے تک امید ہے وہ مشن چاند سے بلاواسطہ مصافحہ کرچکا ہوگا)۔

ہم چاند پر کیوں گئے یا جانا پڑا۔ اس کی ایک اور سب سے اہم وجہ تو یہ ہے کہ بھارت کی شرارت کا جواب دینا ضروری تھا۔ جواب دینا اس لیے ضروری تھا کہ عوام کی طرف سے دباؤ تھا۔ دوسری وجہ یا مقصد جو خبر میں مذکور ہے یہ ہے کہ ہمیں چاند کے گرد تین ماہ تک چکر لگانے ہیں۔ یہ چکر بے مقصد نہیں۔ ان چکروں ہمارا سیٹلائٹ ’’چاند کے چہرے‘‘ کی تصویریں بنائے گا۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان تصویروں کا کیا مقصد، تو عرض ہے کہ برس ہا برس سے ہمارے شعرا اور ادیب ہمیں ’’چاند چہرہ‘‘ کے چکر میں ڈالے ہوئے ہیں۔ ہم ان تصویروں کو دیکھ کر شعرا کے بیانات اور دعووں کی حقیقت جان سکیں گے۔ اس مشن کا ایک اور مقصد جو خبر میں بیان نہیں ہوا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم چاند پر ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن، سرے محل، بلاول ہاؤس، جاتی امرا اور بنی گالہ بنانے کے لیے جگہ محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے جرنیل اور سیاہ ست ڈان اب دبئی، لندن، سعودیہ، امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا سے بور ہوگئے ہوں گے۔ ان کو عوام سے دور نئے ٹھکانے درکار ہوں گے۔

دنیا کو شاید چاند سے ہمارے تعلق اور رشتہ داری کا علم نہیں۔ ہماری دیہاتی ماؤں کے بقول چاند ہمارا ماموں ہے۔ بچپن میں ’’چندا ماموں‘‘ کے نام پر لوریاں سنتے تھے۔ چاند سے پریوں کی آمد کے قصے بھی عام تھے۔ اس کے علاوہ ہمارے شعرا کا بھی چاند کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔ شعرا و ادیب چاند چہروں کے تذکرے کر کے محبوب کے ساتھ فلرٹ اور ہمیں محظوظ کرتے رہتے ہیں۔

ہمارے عشاق تو محبوب کو چاند ہی سمجھتے تھے۔ استاذ قمر جلالوی اپنی کتاب کے ٹائٹل شعر میں اپنے محبوب کے چاند سے رخ کی قسم کھاتے ہوئے اپنے چاند یعنی قمر ہونے کا دعویٰ کردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

’’تمہارے چاند سے رخ کی قسم میں ہی ہوں قمر
جگر کا داغ دکھا دوں جو اعتبار نہ ہو‘‘

ہمارے شعرا اور ادیبوں کے خوش کن تعلق کے علاوہ چاند سے ہمارا رمضان، عیدین اور محرم کے حوالے سے بھی بہت مضبوط دینی جذباتی تعلق ہے۔

کچھ لوگ تو چودھویں کی رات؛ شب بھر چاند چہرہ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ان احمقوں میں سے کچھ اسے چاند اور کچھ پاگل محبوب کا چہرہ سمجھتے رہتے ہیں:

’’کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچہ ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ ترا‘‘

ہم تو چندا ماموں کو دیکھے بغیر نہ روزہ رکھتے ہیں اور نہ عید مناتے ہیں۔ ہم نے تو چندا ماموں کو 29 تاریخ کو ڈھوڈنے کے لیے مرکزی اور صوبائی رویت ہلال کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں۔ چیئرمین سمیت کوئی سو ڈیڑھ سو علماء لمبی لمبی ہبل میں چشمے سمیت گھس کر چندا ماموں کو تلاش کرتے ہیں۔ پھر بھی رات گیارہ بجے تک آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔ (ہمارے ایک پوپلزئی جو عید کے چاند کی طرح صرف انتیس رمضان کو جلوہ گر ہوتے ہیں، پوری رویت ہلال کمیٹیوں سے تیز نظر ہیں۔ وہ سورج غروب ہونے سے بھی پہلے انتیس رمضان کا چاند ڈھوڈ لیتے ہیں) اگر ہم چاند پر پہنچ جاتے ہیں تو امید ہے رویت ہلال کا مسئلہ بھی آسان ہو جائے گا۔ رویت ہلال والوں کو قوم چاند ڈھونڈنے کے باقاعدہ پیسے دیتی ہے۔

بچپن سے اب تک چندا ماموں کے بارے میں سنا بہت کچھ تھا مگر ملاقات کبھی نہیں ہوئی تھی۔ سیٹلائٹ مشن کی تصویریں ’’ماموں‘‘ کے خد و خال دکھائیں گی تو پتا چلے گا کہ ’’چاند چہرہ‘‘ کیسا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا چاند مشن خامخواہ کی فضول خرچی ہے۔ کچھ کہتے ہیں یہ تو چین والوں کا مشن تھا۔ دراصل چین والے اپنا مشن لے کر چاند کی طرف جارہے تھے۔ ان کی گاڑی میں کچھ جگہ خالی تھی۔ انہوں نے دوست ہونے کے ناتے ہم سے پوچھا تو ہم نے موقع غنیمت جانا اور اپنا ہینڈ کیری سیٹیلائٹ ان کی گاڑی میں رکھوا دیا۔ چین ہمارا ’’دوست‘‘ ہے۔ ہمارا یہ چھوٹا سا کام کردیا تو اس میں اعتراض کیوں؟ چاند مشن سے ہم کیا حاصل کریں گے اس کے لیے اگلے تین مہینے بہت اہم ہیں۔ دعا کریں ہمارے سیٹلائٹ کا چاند پردل نہ لگ جائے کہ وہ واپس آنے سے ہی انکار کردے۔ کچھ اور ہو نہ ہو ہمارے فارم 47 کے شعبدہ باز حکمرانوں کو چاند مشن کی صورت اگلے الیکشن میں عوام کو متاثر کرنے کے لیے ایک ’’کارنامہ‘‘ مل گیا۔