اسٹیبلشمنٹ کو آئینی پوزیشن پر آنے کا مشورہ

581

عالمی سطح پر فوجی آمریتوں کا دور لد گیا لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اقتدار کا ایسا چسکا پڑ گیا تھا کہ وہ سول حکومتوں کی بحالی کے باوجود درپردہ ان پر اپنی قوت آزماتی رہی اور آئی ایس آئی کا سیاسی ونگ انہیں بلیک میل کرتا رہا۔ امریکیوں کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہم پاکستان کو اس کی آرمی (یعنی فوج قیادت) کے ذریعے کنٹرول کرتے ہیں۔ پاکستان اپنی اسٹرٹیجک پوزیشن کے اعتبار سے امریکا کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ ہر ممکن طریقے سے پاکستان پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے ممکنہ سہولت فراہم کرتی ہے اور امریکا بھی اسے مراعات سے نوازتا ہے، جب افغانستان کے ساتھ امریکا برسرپیکار تھا تو وہ پاکستانی فوج کو کرائے کی فوج کی حیثیت سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہا تھا اور وہ اس کے لیے باقاعدہ معاوضہ ادا کررہا تھا، کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ معاوضہ کس کی جیب میں جارہا تھا؟ جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں برملا اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے بے شمار لوگوں کو امریکا کے حوالے کرکے ان کے عوض لاکھوں ڈالر وصول کیے، امریکا کو مطلوب ان لوگوں میں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی تھیں جن کا نجانے کتنے ڈالروں کے عوض سودا ہوا اور انہیں بچوں سمیت اغوا کرکے پہلے افغانستان پہنچایا گیا پھر امریکا لے جا کر انہیں ایک مضحکہ خیز مقدمے میں 80 سال قید سخت کی سزا دی گئی۔ اس سزا کے خلاف پاکستان میں عوامی سطح پر تو بہت احتجاج ہوا، سیاستدانوں نے بھی اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ میاں نواز شریف اور عمران خان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ سے ملاقات کرکے ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ برسراقتدار آئے تو عافیہ کی رہائی ان کی پہلی ترجیح ہوگی۔ عمران خان تو وہ سیاستدان تھے جنہوں نے مغربی میڈیا میں بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا اور گرفتاری کے خلاف آواز اٹھائی تھی لیکن جب یہ دونوں حضرات برسراقتدار آئے تو انہوں نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے معاملے میں سرد مہری کا رویہ اپنالیا، حالانکہ دونوں کو اس بات کا موقع ملا کہ وہ امریکی صدر سے براہ راست اپیل کرکے اس کے صوابدیدی اختیار کو بروئے کار لاسکتے تھے۔ خیر سیاستدانوں سے کیا گلہ ان کا قول و فعل ہمیشہ تضاد کا شکار رہا ہے۔ ہمیں حیرت ہے تو اسٹیبلشمنٹ پر کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا پر پاکستان میں اتنا شور مچا لیکن اس نے پُراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی اور جنرل پرویز مشرف نے جس بے حمیتی و بے غیرتی کا مظاہرہ کیا تھا اس کی بزبانِ خاموش حمایت جاری رکھی حالانکہ جنرل پرویز مشرف کے بعد جو فوجی قیادت آئی وہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے نتیجہ خیز کوشش کرکے قوم کے زخموں پر مرہم رکھ سکتی تھی۔ عافیہ کی والدہ اپنی بیٹی کی رہائی کی امید لیے دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنی بہن کی رہائی کے لیے اب بھی کوشاں ہیں لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ بدستور اس معاملے سے لاتعلق ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ذکر تو ضمناً آگیا ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کبھی عوام کی توقعات پر پوری نہیں اُتری۔ پاک فوج کا ہر سپاہی جذبہ شہادت سے سرشار ہے قوم اس کے اس جذبے کی قدر کرتی ہے لیکن کشمیر کے معاملے میں فوجی قیادت نے کبھی فوج کے اس جذبے کو نہیں آزمایا۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ پاک فوج اس قابل تھی (اور ہے) کہ کشمیر کو آزاد کراسکتی تھی اور اس کا بنیادی مشن بھی یہی تھا لیکن امریکا نہیں چاہتا تھا کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے، اس لیے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بھی امریکا کے زیر اثر کشمیر کے معاملے میں مجرمانہ بے حسی اور بزدلی کا مظاہرہ کیا۔ کشمیر کو آزاد کرانے کے کئی مواقع آئے لیکن فوجی قیادت نے ان موقعوں کو ضائع کردیا۔ 1962ء کا واقعہ تو بہت مشہور ہے جب بھارت چین سرحد پر جنگ لگی ہوئی تھی اور چینی وزیراعظم چواین لائی نے جنرل ایوب کو پیغام بھیجا تھا کہ ہم نے بھارتی فوج کو الجھا رکھا ہے تم فوجی کارروائی کرکے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرالو۔ جنرل ایوب اس پیغام پر عمل کرنے کے بجائے مشورے کے لیے امریکا کے پاس چلے گئے اور اس نے فوجی کارروائی سے روک دیا۔ 1990ء کی دہائی میں افغانستان سے روس کی پسپائی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھی کشمیری مجاہدین کو غلبہ حاصل تھا، ایسے میں پاکستان فوجی پیش رفت کرکے کشمیر کی آزادی کو یقینی بنا سکتا تھا لیکن فوجی قیادت نے یہ موقع ضائع کردیا۔ اگست 2019ء میں جب مودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی زندہ تھے۔ انہوں نے پاکستان سے اپیل کی تھی کہ وہ کشمیر کو بچانے کے لیے جو کرسکتا ہے کر گزرے لیکن آرمی چیف جنرل باجوہ نے صحافیوں کو بلا کر یہ کہنا شروع کردیا کہ پاکستان بھارت سے جنگ کے قابل نہیں ہے اس کے ٹینک فرسودہ اور طیارے ناکارہ ہیں اور اس کے پاس جنگ لڑنے کے لیے چند روز کا بھی فیول نہیں ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔
ہم پہلے بھی یہ عرض کرچکے ہیں کہ فوج کا سپاہی جذبہ شہادت سے سرشار ہے۔ ہماری فوج دنیا کی بہترین لڑکا فوجوں میں شمار ہوتی ہے، عوام اس سے محبت کرتے ہیں، وہ 1965ء کی جنگ میں اس کا عملی مظاہرہ بھی کرچکے ہیں لیکن فوجی قیادت نے اس کو بطور ادارہ کمرشلائز کردیا ہے۔ اب فوج پورے ملک میں ہائوسنگ کالونیاں بنارہی ہے، کارخانے اور بینک چلا رہی ہے اور سیاسی جماعتوں کو بلیک میل کرنے درپردہ ملک پر حکومت کررہی ہے اس کی خفیہ ایجنسیاں مخالفین کو غائب کرنے اور انہیں جان سے مار دینے میں شہرت رکھتی ہیں وہ عدالتوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور ان سے اپنی مرضی کے فیصلے لکھواتی ہیں، ان دنوں چھے ججوں کا خط عدالت عظمیٰ ہیں، زیر سماعت ہے جس میں یہی شکایت کی گئی ہے۔ نومنتخب امیر جماعت محترم حافظ نعیم الرحمن جب اسٹیبلشمنٹ سے یہ کہتے ہیں کہ بہت ہوچکا، اب اسٹیبلشمنٹ کو اپنی آئینی پوزیشن پر واپس آنا پڑے گا۔ تو ان کی اس بات کو وسیع تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ آئینی پوزیشن پر واپس آنے کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی اُن تمام غیر آئینی سرگرمیوں سے دستکش ہونا پڑے گا جن کا ذکر ہم ابھی کرچکے ہیں۔ اس میں پاکستان کی بقا و سلامتی کا راز مضمر ہے۔ پاکستان اس وقت ترقی کرسکتا ہے جب اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ جماعت اسلامی اس مقصد کے لیے کام کررہی ہے اور جیسا کہ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کا مقصد قوم کو اس یرغمالی نظام سے آزاد کرانا ہے۔