محنت کشوں کے حقوق

529

دنیا میں محنت اور سرمائے کی کشمکش چلی آرہی ہے، ایک طبقے کے نزدیک محنت اصل ہے اور اس کے مقابلے میں سرمایا بے توقیر ہے، دوسرے طبقے کے نزدیک سرمایا اصل ہے اور محنت ثانوی چیز ہے، اُن کے نزدیک سرمایا ہے تو آپ جسمانی محنت اور ذہنی قابلیت سمیت ہرچیز خرید سکتے ہیں، وہ سرمائے ہی کو قوت وطاقت کا مرکز سمجھتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ اس وقت سرمایادارانہ نظام کو دنیا میں غلبہ حاصل ہے، اس کے مقابلے میں تمام اصول و اقدار بے توقیر ہیں۔

اسلام توسّط واعتدال کا دین ہے، اسلام کے نزدیک سرمایا سب کچھ نہیں ہے، لیکن اپنی جگہ اس کی اہمیت ہے، اسی لیے اسلام میں فرض، واجب اور نفلی صدقات کا نظام ہے، اسلام کے قانونِ وراثت کی حکمت بھی تقسیمِ دولت ہے۔ چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز اسلام کے نزدیک ناپسندیدہ اور حکمتِ دین کے منافی ہے۔ آج ماضی کی غلامی اپنی اصل شکل میں تو موجود نہیں ہے، لیکن سرمایا داری کے غلبے نے قوموں اور ملکوں کو غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔

اسلام محنت کو عظمت دیتا ہے اور محنت کش کو تکریم عطا کرتا ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’کسی شخص نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر طعام نہیں کھایا، بے شک اللہ کے نبی دائودؑ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے، (بخاری) ’’تم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر لائے، یہ اُس سے بہتر ہے کہ وہ کسی شخص سے سوال کرے‘‘۔ (بخاری) انبیائے کرامؑ نے مختلف پیشے اختیار کر کے حِرفت کو تکریم عطا کی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور ہم نے دائود کو تمہارے لیے زِرہ سازی کا فن سکھایا تاکہ تمہیں جنگ کی اذیت سے بچائے‘‘۔ (الانبیاء: 80)

امام رازی لکھتے ہیں: ’’قتادہ نے کہا: سب سے پہلے جس نے زِرہ کی صنعت ایجاد کی، وہ سیدنا دائودؑ ہیں، اس سے پہلے فولاد کے پتروں کو لوگ ڈھال کے طور پر استعمال کرتے، سیدنا دائودؑ نے لوہے کے حلقے (چھلّے) بنائے اور اُن کو جوڑ کر قمیص تیار کرلی۔ حسن نے ذکر کیا: لقمان حکیم سیدنا دائودؑ سے ملنے گئے، وہ اس وقت زِرہ بنا رہے تھے، انہوں نے پوچھنا چاہا لیکن خاموش رہے حتیٰ کہ سیدنا دائودؑ قمیص بناکر فارغ ہوگئے، تب انہوں نے کہا: خاموش رہنا حکمت ہے اور کم لوگ اسے اختیار کرتے ہیں۔ مفسرین نے کہا: اللہ تعالیٰ نے سیدنا دائودؑ کے لیے لوہے کو نرم فرمادیا تھا اور وہ اس کو آگ میں پگھلائے بغیر دھاگے کی طرح اُس سے زِرہ بُن لیتے تھے‘‘، (تفسیر کبیر) علامہ قرطبی لکھتے ہیں:

’’یہ آیت حصولِ معاش کے لیے صنعت، کاری گری اور حِرفت کی اصل ہے۔ بعض جاہل غبی اور متکبر لوگ بعض پیشوں کو حقیر، خسیس اور گھٹیا سمجھتے ہیں، حالانکہ اسباب، صنعتوں اور پیشوں کو اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کا سکھایا ہوا طریقہ ہے، سو جو شخص کسی پیشے سے وابستہ ہے، وہ درحقیقت کتاب وسنت پر عامل ہے‘‘۔ مزید لکھتے ہیں: ’’سیدنا آدمؑ کاشت کاری کرتے تھے، سیدنا نوحؑ لکڑی سے چیزیں بناتے تھے، سیدنا لقمان درزی تھے، سیدنا طالوت کپڑے رنگتے تھے‘‘۔ (تفسیر قرطبی)

علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں: ’’سیدنا عبداللہ بن عباس نے بیان کیا: سیدنا ادریسؑ درزی تھے، سیدنا صالحؑ تاجر تھے، سیدنا ابراہیمؑ کھیتی باڑی کرتے تھے، سیدنا شعیب اور سیدنا موسیٰؑ بکریاں چراتے تھے، سیدنا دائودؑ زِرہ بناتے تھے، سیدنا سلیمانؑ بادشاہ تھے، سیدنا عیسیٰؑ کل کے لیے کچھ ذخیرہ نہیں کرتے تھے، ہمارے نبیؐ اپنے اہل وعیال کے لیے مقامِ اَجیاد میں بکریاں چراتے تھے، سیدہ حواء اون کاتتی تھیں اور اپنے ہاتھ سے کپڑا بُن کر اپنا اور اپنے بچوں کا لباس بناتی تھیں‘‘۔ (المنتظم) سیدنا محمد رسول اللہؐ نے تجارت بھی کی، بکریاں بھی چرائیں، نبیؐ نے فرمایا: اللہ نے جو بھی نبی بھیجا، انہوں نے بکریاں چرائیں، صحابۂ کرام نے پوچھا: یارسول اللہ! آپ نے بھی، آپؐ نے فرمایا: ہاں! میں چند قیراط کے عوض اہلِ مکہ کی بکریاں چراتا تھا‘‘۔ (بخاری)

نوٹ: بکریاں چرانے والے اور حاکم دونوں کو ’’رَاعِی‘‘ کہتے ہیں۔ انبیائے کرامؑ کا بکریاں چرانا امت کی نگہبانی کی تربیت کے لیے تھا، آپؐ کا اس کا اظہار فرمانا اللہ تعالیٰ کے حضور تواضع کے طور پر تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ سے بڑھ کر کوئی اور مکرّم نہیں ہے۔ قرآنِ کریم میںہے: ’’سیدنا شعیبؑ نے (سیدنا موسیٰ سے) کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح اس مہر پر آپ کے ساتھ کردوں کہ آپ آٹھ سال میری ملازمت کریں گے‘‘۔ (القصص: 27) پھر سیدنا موسیٰؑ نے سیدنا شعیبؑ کی بکریاں چرائیں۔

علامہ غلام رسول سعیدی نے لکھا ہے: ’’آج کل جو شخص پھیری لگاکر کندھے پر گٹھڑی رکھ کر کپڑا بیچتا ہو، لوگ اسے کمتر سمجھتے ہیں، مگر سیدنا ابوبکر صدیقؓ بھی یہی کام کرتے تھے۔ ہمارے جلیل القدر ائمہ میں سے بعض مختلف پیشوں سے وابستہ رہے، سیدنا امام احمد بن عمر الخصّاف بہت بڑے فقیہ اور عابد وزاہد تھے، اُن کی فقہ میں تصانیف ہیں، عربی میں ’’خَصَّاف‘‘ موچی کو کہتے ہیں، یہ جوتوں کی مرمت کرتے تھے۔ علامہ احمد بن محمد القدوری بہت بڑے فقیہ تھے، اُن کی عظیم کتاب ’’مُختصَر القُدُورِی‘‘ دینی مدارس کے نصاب میں شامل ہے، ’’قدوری‘‘ مٹی کی ہنڈیا بیچنے والے کو کہتے ہیں۔ ایک اور فقیہ علامہ محمود بن احمد اَلْحَصِیْری ہیں، ’’حصیری‘‘ چٹائی بننے والے کو کہتے ہیں۔ امام ابوبکر بن علی الحدّادی بہت بڑے عالم تھے، انہوں نے ’’مختصر القدوری‘‘ کی شرح لکھی ہے، عربی میں ’’حدّاد‘‘ لوہار کو کہتے ہیں‘‘، (تبیان القرآن) بعض علاقوں میں مختلف پیشوں سے وابستہ لوگوں کو کمّی کمین کہتے ہیں اور انہیں کمتر سمجھا جاتا ہے۔

ہمارے تضادات کا عالَم یہ ہے کہ اگر جفت سازی بہت بڑی صنعت کی حیثیت اختیار کرلے، جیسے سروس شوز، باٹا شوز وغیرہ تو یہ سرمائے کی نسبت سے اعزاز قرار پاتا ہے اور مزدور بے توقیر رہتا ہے، آج کی اسپِننگ اور ٹیکسٹائل ملیں وہی کام کرتی ہیں جو ماضی میں عام مزدور گھروں میں دھاگا کاتنے اور کپڑا بننے کے کام کرتے تھے، مزدور بے توقیر، اسپِننگ اور ٹیکسٹائل ملوں کے مالکان اعزاز واکرام کے حق دار قرار پاتے ہیں۔

محنت کشوں کے حقوق کے متعلق رسول اللہ ؐ کے چند ارشادات حسب ذیل ہیں: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں قیامت کے دن تین شخصوں کے خلاف مدعی ہوں گا، اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے کسی کو اپنے ہاں مزدوری پر رکھا، اس سے پورا کام لیا اور مزدوری نہیں دی‘‘، (بخاری) ’’مزدور کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کیا کرو‘‘، (ابن ماجہ) آپؐ نے فرمایا: اے ابوذر! جس کے ماتحت اس کا کوئی مسلمان بھائی کام کرتا ہے، اسے چاہیے کہ جو خود کھائے، ویسا ہی اسے کھلائے، جو خود پہنے ویسا ہی اسے پہنائے، اس سے ایسا کام نہ لے جو اُس کی طاقت سے زیادہ ہو اور اگر ایسا کوئی کام اس کے ذمے لگادیا ہو تو خود بھی اس کی مدد کرے‘‘۔ (بخاری ) ’’ملازم کو ایسے کام پر مجبور نہ کیا جائے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا‘‘۔ (مسلم)

’’ابو مسعود انصاری بیان کرتے ہیں: میں اپنے غلام کو مار رہا تھا، میں نے پیچھے سے آواز سنی: ابومسعود! جان لو! جتنی قدرت تمہیں اس غلام پر ہے، اس سے بدرجہا زائد قوت اللہ کو تم پر ہے، میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ رسول اللہؐ تھے، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ اللہ کے لیے آزاد ہے، آپؐ نے فرمایا: اگر تم یہ نہ کرتے تو تمہیں جہنم کی آگ جھلسا دیتی‘‘۔ (مسلم)

سیدنا کعب بیان کرتے ہیں: ’’ایک شخص تیزی کے ساتھ نبیؐ کے پاس سے گزرا، صحابۂ کرام نے اسے دیکھا تو انہیں تعجب ہوا، عرض کیا: یارسول اللہ! اگر یہ ایسی ہمت وتیزی اللہ کی راہ میں دکھاتا تو کتنا اچھا ہوتا، آپؐ نے فرمایا: اگر وہ اپنے عیال یا بوڑھے والدین کے لیے روزی کمانے نکلا ہے تو اللہ کی راہ میں ہے، اگر یہ کوشش اس لیے ہے کہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے تب بھی اللہ کی راہ میں ہے، اگر ریاکاری اور دوسروں پر فخر کے لیے کمانے نکلا ہے تو شیطان کے راستے میں ہے‘‘۔ (المعجم الکبیر)