کچھ خوف کے بارے میں

683

یہ ٹھیک ہے کہ انسان چاند پر پہنچ گیا ہے اور مریخ پر چہل قدمی کرنے ہی والا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی کا ہر گوشہ خوف کی نرسری بن گیا ہے۔ سیاسی خوف، سماجی خوف، اقتصادی خوف۔ نفسیات کی مرتب کی ہوئی فہرست اٹھا کر دیکھے تو معلوم ہو گا کہ اتنے فوبیا وجود میں آگئے ہیں کہ اگر کوئی ان کے نام یاد کرلے تو شاید ایک یا کئی نئے فوبیا پیدا ہو جائیں۔ انسان کے حوالے سے یہ ایک مایوس کن منظر ہے لیکن عصر حاضر پر اس حوالے سے الزام لگانا کہاں تک درست ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ انسان اور خوف کا ساتھ پرانا ہے۔ ذرا جدید عمرانیات اور علم بشریات کو دیکھیے، وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ سارے فلسفے یہاں تک کے سارے مذاہب خوف سے نمٹنے اور اس پر قابو پانے کی کوشش سے وجود میں آئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خوف ہے کیا اور یہ کہاں سے وجود میں آتا ہے؟
اس سلسلے میں بعض جدید علوم کا مشترکہ قسم کا جواب تلاش کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ سارا قصہ سود و زیاں کا ہے۔ ہر وہ چیز جس سے انسان کو نقصان کا خدشہ ہو اس کے لیے خوف کا باعث ہوتی ہے اور جس شے سے انسان کو نقصان کا خطرہ نہ ہو اس سے خوف محسوس نہیں ہوتا۔ یہ سوال جیسا بھی کچھ ہے بڑی حد تک سرسری ہے اور اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سود و زیاں کا مسئلہ بجا لیکن سودو زیاں کا کوئی پیمانہ بھی تو ہوگا اور اگر پیمانہ ہے تو پھر یہ پیمانہ سودو زیاں سے زیادہ اہم ہوگا۔
اس بارے میں تھیو سونی کا بھی ایک نقطہ نظر ہے جسے کرشنا مورتی نے ایک جگہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سارا مسئلہ پوزیشن کا ہے۔ یعنی یہ کہ انسان زندگی یہاں تک کہ اس زندگی کے بعد بھی ایک پوزیشن چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان پوزیشن کیوں چاہتا ہے؟ کرشنا مورتی نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ انسان صفر یا No body بننے سے ڈرتا ہے۔ اس لیے وہ ہر جگہ ایک پوزیشن چاہتا ہے اور جہاں اسے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کوئی پوزیشن حاصل نہیں ہو سکے گی یا وہ پہلے سے حاصل پوزیشن کو کھودے گا اسے وہاں سے خوف کی گہری آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ یہ تجزیہ بعض نفسیاتی توجیہات کے قریب تر ہے اور اس میں ایک سطح کی معقولیت پائی جاتی ہے۔ لیکن اس مسئلے کو ایک اور طرح بھی دیکھا گیا ہے۔
کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ یہ مسئلہ علم اور لاعلمی سے متعلق ہے اور خوف کا مطلب ہی لا علمی ہے کیونکہ جہاں لاعلمی نہیں ہوگی وہاں خوف نہیں ہوگا۔ یہ ایک مذہبی تناظر ہے اور اس تناظر میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ابتدائی مرحلے میں علم بھی خوف کا سبب ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ نقطہ نظر مرتب ہوتا ہے کہ خوف معلوم کا بھی ہوتا ہے اور نا معلوم کا بھی۔ مگر علم کتنے لوگوں کا کامل ہوتا ہے؟ اس اعتبار سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خوف سے کون مامون ہو سکتا ہے؟
یہاں علم کی بات ذرا مبہم ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس کی وضاحت کر دی جائے کہ علم کسی چیز کا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ لفظ علم کا حقیقی اطلاق صرف ایک چیز کے علم پر ہوتا ہے۔ اصل اصول کے علم پر۔ اصل اصول کے بارے میں جانی گئی ایک بات غیر اصل اصول کے بارے میں جانی گئی لاکھوں باتوں سے زیادہ اہم ہے۔ جس کے پاس اصل اصول کا علم نہیں اس کے پاس دراصل کسی بھی چیز کا علم نہیں اور اگر ہے بھی تو اس کی حیثیت ایک اطلاع سے زیادہ نہیں۔ آپ چاہیں تو اصل اصول کو توحید بھی کہ سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خوف کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قربت اور فاصلے سے ہے۔ انسان خدا سے جتنا قریب ہوگا اتنا ہی اس کا خوف کم ہوگا اور انسان اللہ تعالیٰ سے جتنا فاصلہ بڑھائے گا اس کا خوف اتنا ہی بڑھے گا۔ خدا کے قریب ہونے کا مفہوم دراصل اپنی اصل اور اپنے اصل اصول کے قریب ہوتا ہے اور خدا سے دور ہونے کا مطلب اپنی اصل اور اپنے اصل اصول سے دور ہو جانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں ایسے نفوس کی طرف اشارے ہیں جو خوف اور حزن و ملال سے مامون ہو جاتے ہیں اور میدان کارزار میں جن کے قلوب پر سکینت اتاری جاتی ہے۔ یہاں حزن و ملال سے بے نیازی کا مفہوم شاید یہ نہیں ہے کہ ان پر حزن و ملال کی کوئی کیفیت گزرتی ہی نہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے لیے ایسی کوئی بھی کیفیت مستقل نہیں ہوتی اور چونکہ کیفیت مستقل نہیں ہوتی، اس لیے ان کے اور اصل اصول کے مابین کوئی خلیج بھی حائل نہیں ہوتی۔ لیکن خوف کی ایکقسم بہت مختلف بھی ہے۔
انسان انا کے زیر اثر خود کو بہت کچھ بلکہ بسا اوقات شعوری یا لاشعوری طور پر سب کچھ سمجھنے لگتا ہے لیکن اصل اصول کا علم اور اس کی قربت جیسے جیسے بڑھتی ہے انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو کچھ بھی نہیں۔ یہ وہ سفر ہے جس میں جلد ہی وہ مقام آتا ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ وہ واجب الوجوب کے حوالے سے ممکن بھی کیونکر ہے؟ لفظ حیرت کا مفہوم اس مقام پر کھلتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں نہ سانس آتا ہے نہ جاتا ہے اور نہ دم نکلتا ہے۔ بعض صوفیا، علما اور محدثین کے بارے میںآیا ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کی کوئی آیت سماعت کی اور ان پر ایک ثانیے میں اس آیت مبارکہ کی کوئی سطح ظاہر ہوئی اور وہ اس کی تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہو گئے ہیں۔ علما نے کہا ہے کہ اس تجربے میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ یہ صورت حال یقینا قرب کا نتیجہ ہوتی ہے لیکن یہ قرب و بعد کو نمایاں کر دیتا ہے جس سے ایسی خیرگی (Awareness) پیدا ہوتی ہے جسے عرف عام میںعرفان بھی کہا جاتا ہے۔
بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ انسان کی جانب سے ترقی کے تمام تر دعوے کے با وجود زندگی کا ہر گوشہ خوف کی نرسری بن گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ صورت حال کسی حقیقت کی عکاس ہے؟ بات یہ ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت سیاسی، سماجی، اقتصادی یا زیادہ سے زیادہ نفسیاتی سطح پر مقیم ہو چکی ہے اور ان سطحوں سے اوپر اٹھنے پر آمادہ نہیں۔ اس لیے ان کے حوالے سے خوف کے لفظ کا استعمال بھی مناسب نہیں۔ خوف کا لفظ ایک آفاقی اور کا ئنات گیر سطح رکھتا ہے چنانچہ آج کل کے لوگوں کے لیے دھڑ کا کھٹکا، اندیشہ، ہول یا اسی قسم کا کوئی اور لفظ استعمال کرنا چاہیے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان خوف محسوس کرنے کے بھی قابل نہیں رہا؟ افسوس کہ صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔