جموں کشمیر میں انتخابی ڈھونگ

479

ریاست جموں و کشمیر سات دہائیوں سے زائد عرصے سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع خطہ ہے جس کا واحد حل باشندگان ریاست کی منشاء کے مطابق قرار دیا چکا ہے اقوامِ متحدہ کے قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کے بجائے جموں کشمیر پر بزور طاقت قابض ہونے کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان چھوٹے بڑے کئی معرکے چشم فلک نے دیکھے ہیں جو مال و متاع اور انسانی جانوں کے ضیاع کے سوا بے سود ہی ثابت ہوئے ہیں۔ تنازع ریاست جموں کشمیر نے دونوں ممالک کو ہتھیاروں کی دوڑ پر گامزن کردیا ہے یہاں تک کہ دونوں ممالک نے ایٹمی قوت بننے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔ طاقت کے اس توازن کے بعد پاک و ہند کو ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی پوزیشن سے دستبردار ہونے کی ضرورت تھی اور باہم تنازعات بالخصوص ریاست جموں کشمیر کے قضیے کا آبرو مندانہ حل برآمد کرنے کے لیے نتیجہ خیز جستجو کی راہ اپنانی چاہیے تھی تاآنکہ دونوں ممالک عرصہ دراز پر محیط جنگ و جدل سے نجات پا کر مثالی پڑوسیوں کا کردار نبھاتے، عوام کی بہبود اور فلاح پر اپنی قوت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے لیکن بین الاقوامی سازشوں کے چنگل نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے مد مقابل ہی لا کر کھڑا کردیا ہے یوں ریاست جموں کشمیر کے عوام پاک و ہند کی چکی میں اشیاء خورو نوش کی طرح کبھی باریک اور کبھی کھردرے پستے آئے ہیں۔

ریاست جموں و کشمیر 5 اگست 2019 کو بھارتی استبدادی اقدام، ریاستی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز جموں کشمیر اور لداخ میں منقسم کرنے کے بعد ایک دفعہ پھر نام نہاد انتخابی عمل سے گزر رہی ہے۔ انتخابات سے قبل ہی بھارت کی انتہا پسند حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اجارہ داری قائم کرنے کے پیش نظر ریاست کے انتخابی حلقوں کو تغیر و تبدل کرکے دھاندلی کا آغاز کردیا تھا۔ ریاستی انتخابات میں فتح کے جھنڈے گاڑنے کی غرض سے غیر ریاستی باشندگان کو ڈومیسائل کا اجراء اور انتخابی حلقہ بندیوں کے رد و بدل سے بھی مطلوب نتائج کے حصول میں ناکامی کے خوف سے بھارت کی انتہا پسند حکمران جماعت چھٹکارا نہ پاسکی۔ انتخابات میں من مرضی نتائج کے حصول میں صوبہ کشمیر کے انتخابی حلقے اننت ناگ کو صوبہ جموں کے راجوری پونچھ کے ساتھ ملاپ کی بددیانتی روز روشن کی طرح عیاں ہے اس انتخابی حلقے کا جوڑنے والا واحد راستہ مغل روڑ ہے جو چھے ماہ برف باری کی وجہ سے منقطع رہتا ہے اس غیر منطقی حلقہ بندی کا واحد مقصد بی جے پی کے امیدوار کو بآسانی جتوانے کا منصوبہ تھا لیکن شکست کے خوف اور انتخابی حلقہ بندیوں کی ہیرا پھیری کے باوجود بی جے پی اس حلقے سے اپنا نمائندہ میدان میں اتارنے کی جرأت نہ کرسکی باقی ماندہ دو حلقوں سرینگر اور بارہمولہ میں بھی بی جے پی اپنے امیدوار لانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے جو بے جاہ قدغنوں کے باوجود بی جے پی کی سیاسی انجینئرنگ کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے جس کو ریاستی عوام کی اعصابی فتح سے تعبیر کیے جانے میں رائی کا دانہ بھی مانع نہیں ہے۔

آج کل چونکہ ریاست جموں کشمیر میں بھارتی لوک سبھا کے انتخابات کا چرچا ہے اور بھارت سرکار انتخابات کی کامیابی کے لیے سر توڑ کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ ریاست جموں کشمیر سے بھارتی لوک سبھا کے لیے چھے نمائندے اننت ناگ، سرینگر، بارہمولہ، لداخ، جموں اور اودھم پور کے انتخابی حلقوں سے چنے جاتے ہیں لیکن ریاست کا شیرازہ بکھیر کر یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کرنے اور دنیا کے آنکھوں میں ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کی دھول جھونکنے کے بعد بھی بھارت سرکار جموں کشمیر میں دس لاکھ افواج کی موجودگی میں یکمشت انتخابات کرانے کی جسارت کرنے سے عاری رہا ہے جو جموں کشمیر میں گمبھیر صورتحال کی عکاسی کے لیے کافی ہیں۔

مقبوضہ جموں کشمیر پر قبضہ قائم رکھنے کی روش اور ہٹ دھرمی نے بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ جموں کشمیر کے تنازع پر پاکستان کے ساتھ کئی جنگیں بھی لڑ چکے ہیں، دنیا کے دکھانے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں بارہا بوگس انتخابات منعقد کروائے گئے ہیں، جس کا کشمیری عوام بار ہا بائیکاٹ کرتے آئے ہیں۔ بھارت کی انتہا پسند جماعت بی جے پی نے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کو ہڑپ کرنے کے آخری حربے کو استعمال کرکے دفعہ 370 اور 35A کا خاتمہ کرکے ریاستی عوام کو یرغمال بنائے رکھا اور کشمیری عوام کو زیر کرنے کے لیے انسانیت سوز ہر ہتھکنڈا استعمال کیا ہے۔ انتہا پسند جماعت بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی کی خواہش رہی ہے کہ ریاست جموں کشمیر میں کچھ ایسا چمتکار ہوجائے کہ ان کی پارٹی کو پزیرائی حاصل ہوسکے اور ریاستی عوام اپنے بنیادی حق سے دستبردار ہوجائے تاکہ وہ پروپیگنڈا کر کے دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونک سکیں، لیکن بھارت کے نام نہاد سیکولر جمہوری ایجنڈے کے بلند بانگ دعوے، کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے، انسانی حقوق کی پامالیوں اور پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر کثیر اخراجات صرف کرنے کی جھوٹی پروپیگنڈا مہم کو عالمی شہرت یافتہ تنظیموں اور اداروں نے یکسر مسترد کرکے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

جموں کشمیر میں لاکھوں افواج کی موجودگی، کشمیریوں پر ڈھائے گئے انسانیت سوز مظالم، بدنیتی پر مبنی پون صدی سے زائد جاری چالاکیاں، عیاریاں و مکاریاں، دھوکہ دہی و دغابازیاں اور کشمیر کش اقدامات کا تسلسل، مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوامِ متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد نہ کروانے کی مجرمانہ غفلت، جموں کشمیر میں نام نہاد انتخابات اور کٹھ پتلی حکومتوں کے قیام کا ڈھونگ، طاقت کے بل بوتے پر ریاست جموں کشمیر کو فتح کرنے کے آزمائے گئے تمام حربے اور مہم جوئیاں ریاستی عوام کی توانا آواز کے مدمقابل ناکام ثابت ہوئی ہیں لہٰذا آہنی ہتھکنڈوں سے ریاستی عوام کے جذبات کو دبانے کے بجائے کشمیریوں کے جائز مطالبات تسلیم کیے جائیں، زمینی حقائق اور حالات کا از سر نوجائزہ لے کر پاکستان اور بھارت کو جموں کشمیر سمیت دیگر باہمی تنازعات کو علاقائی اور بین الاقوامی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے باوقار حل تلاش کرنے کے لیے سر جوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ ریاست جموں کشمیر اور پاک و ہند کی عوام دن رات کے جسمانی اور ذہنی تناؤ سے نجات پاکر سکھ کے سانس لے سکیں اور دنیا میں اپنا لوہا منوانے کے صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر عالم انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنے میں کوئی روکاٹ حائل نہ ہونے پائے۔