یہ کیسا بیان ہے؟
وزیراعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ کے فور منصوبہ مکمل ہو بھی گیا تو بھی کراچی کے عوام کو اُن کے گھر تک پانی نہیں پہنچ پائے گا۔ بھلا کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ پچھلے سولہ سال سے حکومت پر قابض سیاسی جماعتیں نہ تو اس منصوبے کو مکمل کرپائیں اور نہ ہی انہوں نے کراچی کو ترسیل پانی کے لیے نظام کو بہتر بنایا، وہی عشروں پرانا نظام جس میں پہلے سے ہی پانی کی لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں اور جس کی وجہ سے پانی ضائع ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ کا یہ اعلان دراصل ان کی اپنی نااہلی کے اعتراف کا اعلان تھا۔ نعمت اللہ خان کا کراچی کو دیا ہوا یہ منصوبہ یومیہ چھے سو پچاس بلین گیلن پانی فراہمی کا منصوبہ تھا جس میں انہوں نے پانی کی یومیہ کٹوتی کرکے اس کو دو سو ساٹھ ملین گیلن تک گھٹا دیا۔ کراچی کے ساتھ اس زیادتی میں وہ ساری سیاسی جماعتیں شامل ہیں جو یہاں اقتدار میں شریک رہیں۔ اب بھلا کوئی پوچھے کہ اگر کے فور منصوبے سے کراچی کے لوگوں کے گھروں میں پانی نہیں آئے گا تو پھر کہاں جائے گا، سادہ سا جواب ہے کہ پھر وہ ٹینکر مافیا کو مزید نوازے جانے کا سبب بنے گا۔ حال یہ ہے کہ کراچی کے لوگوں کے لیے پانی کا حصول روز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے۔ دوسری طرف ٹینکر مافیا کو پہلے بھی پانی وافر حاصل تھا اب ان کے لیے اور زیادہ آسانی فراہم کی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹینکر مافیا نے حکومت کی ملی بھگت کے ذریعے پورے شہر میں اپنے قدم جمالیے ہیں۔ پہلے شہر کے سب ہی علاقوں میں سوائے ڈیفنس کے نلکوں میں پانی آتا تھا۔ شہر کے گنجان علاقوں میں بھی لائنوں کے ذریعے گھروں میں میٹھا پانی آتا تھا جو پینے کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔ اب تو حال یہ ہے کہ پینے کے لیے الگ پانی خریدنا پڑتا ہے اور استعمال کرنے کے لیے الگ پانی خریدنا پڑتا ہے۔ پھر بھی پانی کے معیار کا مسئلہ ہی رہتا ہے۔ گھروں کے نلکوں میں پانی نہیں آتا لیکن ٹینکر مافیا کے پاس خوب پانی آتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پانی کے ٹینکر کے کاروبار میں روزانہ کی بنیادوں پر کم از کم ساڑھے چھے کروڑ کا پانی ٹینکروں کے ذریعے فروخت کیا جاتا ہے۔ جس کی مقدار کم و بیش 32 ملین گیلن یومیہ ہے یہ اعداد و شمار صرف 6 قانونی ہائیڈرنٹس کو منظر رکھ کردیے گئے ہیں، جبکہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی تعداد تو نامعلوم ہے۔
حاصل معلومات کے مطابق کراچی میں 200 غیر قانونی ہائیڈرنٹس چلنے کا انکشاف ہوا ہے۔ شہر کے اکثر علاقوں میں پائپ لائنز کے ذریعے پانی نہیں ملتا بلکہ ٹینکرز کے ذریعے مہنگے داموں پانی فراہم کرنا معمول کی بات ہے۔ یہ سارے غیر قانونی ہائیڈرنٹس حکومت کی سرپرستی میں جاری نہیں جن کے ذریعے خوب نفع کمایا جاتا ہے۔ کراچی کے لیے اضافی پانی کا منصوبہ نعمت اللہ خان نے دیا تھا۔ اس وقت اس کی لاگت کا تخمینہ 15 ارب تھا جو اب وقت کے ساتھ بڑھ کر 75 ارب پہنچ چکا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کراچی کو اس کا پورا پانی بھی فراہم نہیں کیا جارہا۔ کیوں کہ ٹرانسمیشن سسٹم میں سکت نہیں ہے اور نہ ہی اس کو اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ اب وزیراعلیٰ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ کراچی کے عوام کو کے فور کا پانی جو مقدار میں انتہائی کم کردیا گیا وہ بھی فراہم نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے لیے پمپنگ اسٹیشن اور پائپ لائن دونوں میں سکت نہیں ہے۔ ان دونوں کے لیے فنڈز چاہئیں، جبکہ پچھلے پندرہ بیس سال سے پیپلز پارٹی کراچی سمیت سندھ پر قابض ہے۔ حال یہ ہے کہ کراچی کے لوگ پانی کے لیے پریشان رہتے ہیں اس کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، اکثر علاقوں میں لوگ پانی کے حصول کے لیے راتوں کو جاگتے ہیں، پھر بھی حاصل ہونے والا پانی ان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نہ تو کافی ہوتا ہے اور نہ ہی اس قابل ہوتا ہے کہ اسے پیا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کو ملنے والا پانی بھی کراچی کے شہریوں تک نہیں پہنچتا بلکہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے ذریعے ٹینکر مافیا کے دے دیا جاتا ہے اور پھر اس کے ذریعے حکومت، پولیس اور دیگر ادارے اپنا اپنا حصہ حاصل کرتے ہیں۔ عوام ٹینکر مافیا کے ذریعے انتہائی مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ جہاں غریب عوام مہنگے داموں پانی خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، وہاں اپنی مدد آپ کے تحت کنویں کھدواتے ہیں جو مضر صحت ہوتا ہے اور جس کو کھانا پکانے اور پینے کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پھر زیر زمین تیزی سے پانی نکالنا تباہی کی طرف قدم ہے جو تعمیرات کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ ان سارے مسائل کے بعد میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کراچی کے عوام کو خبر دیتے ہیں کہ ’’ہم پانی کے پیسے بڑھانے پر غور کررہے ہیں‘‘۔ اب کوئی ان سے پوچھے کس بات کے پیسے؟۔