ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
جب سے اللہ تعالیٰ نے انسانی آبادی کا آغاز فرمایا اور معمورہ عالم میں انسانی آبادی میں اضافے کے بعد معاشرہ وجود میں آیا قومیں اور قبائل تشکیل دیے گئے انسان پیشے کے اعتبار سے مختلف طبقات میں تقسیم ہوئے آجر و اجیر سرمایہ دار و مزدور کا سلسلہ شروع ہوا تو اس دن سے لیکر آج تک دنیا کے تمام ملکوں، خطوں اور علاقوں میں مزدور کا استحصال جاری ہے سوائے ان ادوار مقدسہ کے جن میں نبوت و خلافت راشدہ کا زمانہ ہے مزدور کو بھرپور عزت دی گئی اور ضروریات زندگی کے مطابق ان کو معاوضہ دیا گیا ابوبکر صدیقؓ جب خلیفہ ہوئے تو حکم جاری فرمایا ہر شخص سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیا جائے اور اس کی ضرورت کے مطابق اسے معاوضہ دیا جائے۔ لیکن دنیا میں جب بڑے بڑے سرمایہ دار جاگیردار صنعت کار، کارزار حیات میں سرگرم عمل ہوئے ہوس زر و مال نے ان کے دل و دماغ پر قبضہ کیا تو انہوں نے مزدوروں کا استحصال شروع کردیا چونکہ مال کی کھپت اور ضرورت بڑھتی چلی گئی کارخانوں ملوں کی تعداد کم تھی تو مزدوروں سے سولہ سولہ گھنٹے کام لیا جانے لگا پھر دوران کام اگر کوئی مزدور زخمی ہوجاتا تو اس کا علاج معالجے کرنے کے بجائے اسے لاوارث چھوڑ دیا جاتا اس کی تنخواہ بند کر دی جاتی۔ صنعت کار سرمایہ دار سے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا نہ کوئی قانون کہ اسے عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے درجنوں مزدور کوئلے اور جپسم کی کانوں میں کھدائی کے دوران لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے دب کر مرجاتے ان کی تجہیز و تکفین کا انتظام تک نہیں تھا بلکہ ان کی وفات کے بعد اکثر اوقات ان کے خاندان فاقوں کا شکار ہوجاتے اس میں مغرب و مشرق کا رویہ یکساں تھا ان ناگفتہ بہ اور دگرگوں حالات کو دیکھ کر مزدور روز بروز بے چین ہوتے چلے گئے۔ 16گھنٹے کی جان لیوا اور اعصاب شکن محنت نے ان کی جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے تو مزوروں نے جمع ہو کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا پروگرام بنایا امریکا کے بڑے صنعتی شہر شکاگو کے مزدوروں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے کام کاج کے لیے 8گھنٹے وقت مقرر کیا جائے اس مطالبے نے لاکھوں کو مزدووں کو یکجا کردیا حکومت وقت نے ان کے مطالبات سے غفلت کا اظہار کیا آخر کار مزدوروں نے اپنے مطالبے کو احتجاج کے ذریعے منوانے اور عملی جامہ پہنانے کے لیے ہڑتال کا اعلان کردیا۔ علامہ اقبال نے فرمایا:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دو
امریکا کے بڑے صنعتی شہر شگاگو میں لاکھوں مزدوروں نے اپنے مطالبات کے حق میں یکم مئی 1886کو ہڑتال کا آغاز کیا محض ایک یا دو دن کے وقفے سے مقامی پولیس نے بغیر کسی اشتعال کے مزدوروں پر گولی چلائی جس میں کئی مزدور جان کی بازی ہار گئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ یہ ہے مغربی سامراج کا خونخوار اور بھیانک چہرہ جو انسانی حقوق کے راگ الاپتا ہے۔ اگر خود مزدوروں کو ان کا حق دینے کے لیے تیار نہیں کئی سال کی طویل جدوجہد کے بعد 1890میں مزدوروں کے مطالبات منظور ہوئے اشتراکی نظام یا سوشلزم و کمیونزم بھی غریبوں کے نام پر سرمایہ دارانہ نظام کے بطن سے پیدا ہوئے مگر ان نظام ہائے زندگی میں بھی مزدوروں کے حقوق نہیں دیے بلکہ مزدور کو احتجاج کا حق دے کر سرمایہ دار کو تالا بندی کا اختیار دے دیا۔
پاکستان میں مزدوروں کے حق میں سب سے بڑی اور مؤثر آواز سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1970میں بلند کی تھی بعد میں لیبر قوانین بھی بنائے گئے مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوا اس کے دو بنیادی اسباب ہیں ایک مزدوروں کی اکثریت کا ان پڑھ غیر تعلیم یافتہ ہونا اور دوسرا بیوروکریسی کی چالبازیاں اورمہنگا وپیچیدہ عدالتی نظام پاکستان میں آج کا مزدور پچھلی صدی کی دہلیز پر کھڑاہے۔ پاکستان میں اگر مزدوروں اور آجروں کے حوالے سے اسلامی اصلاحات کو نافذ کیا جائے آجر اور اجیر دونوں کو باہمی تعاون کی اسلامی تعلیمات کی اہمیت فوائد اور فضائل سے آگاہ کیا جائے تو مزدوروں کے موجودہ مسائل کو حل کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے محنت و مشقت سے حلال روزی کمانا بڑے فخر اور اعزاز کی بات ہے اکثر انبیاء کرام نے مزدوری کا پیشہ اختیار کیا رسول اکرمؐ نے فرمایا ہر نبی نے بکریاں چرانے کا پیشہ اختیار کیا اور میں بھی چند قراریط پر اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ (ابن ماجہ) رسول اکرمؐ نے مزدوروں کے لیے بھی خاص تعلیمات ارشاد فرمائی ہیں کہ وہ کسی بھی ذمے داری اور کام کو کرتے وقت طے شدہ کام کو دیانتداری اور وعدے کی پاسداری کے ساتھ مکمل کریں فرمایا بہترین مزدور کی وہ محنت ہے جو وہ اپنے ہاتھ سے کرتاہے اللہ تعالیٰ صنعت و حرفت میں محنت کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ رسول کریمؐ نے خود مزدوری کرکے مزدوروں کی شان میں اضافہ فرمایا جب مسجد نبوی کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا تو آپؐ صحابہ کرام کے ساتھ مل کر اپنے کندھے پر اینٹیں اٹھا کر لاتے اور اس دوران عربی زبان کے اشعار بھی پڑھتے۔
غزوہ خندق میں خندق کی کھدائی کے دوران آپؐ صحابہ کے ساتھ مل کر مٹی کو دوسری جگہ منتقل کرتے رہے بلکہ ایک ایسا موقع آیا کہ آپؐ نے ایک سخت چٹان کو توڑنے کے لیے طاقتور مزدور کا کردار اداکیا۔ اسلام نے آجر کی بھی تربیت فرمائی کہ وہ ملازمین مزدوروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں حدیث رسولؐ ہے کہ ماتحت ملازم تمہارے بھائی ہیں انہیں ان کی قوت برداشت سے زیادہ کام کی مشقت نہ دو اگر دو تو پھر ان کی مدد کرو۔ آجر کو یہ سمجھایا کہ سرمائے کی وجہ سے اس کے دل و دماغ میں غرور نہیں پیدا ہوناچاہیے بلکہ مزدور کے بارے میں اس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہونی چاہیے کہ:
1۔ وہ ان کے بھائی ہیں۔2۔ ان کو قابل برداشت کام دیں۔3۔ کام وقت کے حساب سے دیں۔4۔اجرت مناسب اور ضروریات کے مطابق ہو۔5۔معاملہ بھی مناسب ہو۔
رسول کریمؐ نے فرمایا تین اشخاص کی وکالت کا وعدہ خود اللہ نے فرمایا ہے جن میں ایک وہ مزدور جس کی مزدوری نہ دی گئی ہو بلکہ یہاں تک فرمان نبوی ہے مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو ( ابن ماجہ) جو آجر مزدور کی اجرت زیادہ ادا کرے وہ ان لوگوں میں شامل ہے جن کی دعائیں اللہ کریم مشکل اوقات مصائب اور حادثات کے موقع پر قبول فرماتا ہے۔
حدیث کی جامع ترین کتاب صحیح بخاری میں ایک روایت حدیث الغار ہے جس میں تین لوگوں کا واقعہ ہے جو دوران سفر بارش اور آندھی کے وقت ایک غار میں پناہ لیتے ہیں اور شدید آندھی کے وقت بہت بڑی چٹان گرنے سے غار کا منہ بند ہوجانے پر وہ پھنس جاتے ہیں وہ آپس میں مشاورت کرتے ہیں کہ اس وقت کسی کو اس جنگل میں مدد کے لیے بلا نہیں سکتے نہ کسی کو اپنی آپ بیتی سنا سکتے ہیں چنانچہ زندگی میں ان تینوں نے جو کام کسی کی مدد کی صورت میں محض اللہ کی رضا کے لیے خلوص کے ساتھ انجام دیا تھا اس کا وسیلہ دے کر اللہ سے مدد مانگیں تاکہ رب العالمین اس مشکل سے چھٹکارا عطا فرمائے اور غار سے زندہ سلامت نکاسی کا سامان پیدا کردے
ایک آجرنے کہا اے اللہ میں نے ایک مزدور کو اجرت پر رکھا کام کی تکمیل پر اسے میں نے اجرت پیش کی مگر وہ اسے کم سمجھ کرناراض ہو کر بغیر اجرت لیے چلا گیا میں نے اس رقم سے جانور خریدا رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا چلاگیا کہ وہ ایک ریوڑ بن گیا وہ چند سال بعد اپنی مزدوری لینے کے لیے آیا مجھ سے اجرت کا مطالبہ کیا میں نے اسے کہا جانوروں کا ریوڑ اسی کا ہے وہ اسے لے کر چلا جائے وہ کہنے لگا مجھے صرف میری اجرت دے دو اور مذاق نہ کرو میں نے اسے ساری تفصیل بتائی تو وہ بڑا خوش ہوا اور ریوڑ لے کر چلاگیا۔ اے میرے اللہ اگر میں نے یہ سب کچھ تیری رضا کے لیے کیا ہے تو ہمیں اس مشکل سے نجات دے دے اس دعا کے بعد پتھر اللہ کے حکم سے اس قدر اپنی جگہ سے سرک گیا کہ تینوں بخیر و عافیت اس غار سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے اگر ایک آجر اپنے مزدور کے ساتھ حسن سلوک نیکی اور بھلائی کرتا ہے تو جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلائی مل جاتی ہے کیونکہ حدیث مبارکہ ہے اللہ اپنے اس بندے کی مدد کرتا ہے جو اپنے بھائی کی مدد کرے بلکہ رسول اکرمؐ نے اسے بہترین انسان قرار دیتے ہوئے فرمایا بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے۔
کرو مہربانی تم اہل زمین پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں