کتا نما اور لوٹا

585

میرے ملک پر انگریزوں نے ایک صدی سے زیادہ حکومت کی ہے۔ لیکن میرے دنیا میں آنے سے پہلے اس خطے کے لوگوں کو اپنے غلام دیسی سیاست ’’ڈانوں‘‘ کے حوالے کر کے اپنے ملک رخصت ہوگئے۔ ہوش سنبھالا تو ریلوے لائن، شاندار نہری نظام اور کچھ اور نشانیاں ان کی یاد دلانے کے لیے موجود پائیں۔ ان کے دور کے عظیم ترقیاتی منصوبے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انگریز ایمان کے بغیر بھی ایماندار تھے اور ہمارے حکمران ایمان کے ساتھ بھی ایمانداری کی وصف سے یکسر خالی، بد دیانت اور بدعہد ہیں۔

مندرجہ بالا بات کے علاوہ بدترین فطرت کے حکمران انہی انگریزوں کی بدترین نشانیوں میں سے ہیں۔ انگریزوں سے براہ راست واسطہ نہیں پڑا اس لیے میں ان لوگوں کی پسند ناپسند، رسوم و رواج اور عادات و اطوار سے بالکل بھی واقف نہیں ہوں۔ یہاں یو کے میں کچھ دنوں کے قیام میں جو کچھ جان سکا ہوں وہ یہ ہے کہ کتا ان کی زندگی کا اہم جزو یعنی جزو لابدمنہ ہے جبکہ لوٹا ان کے نظام زندگی میں اجنبی و نا مانوس ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حسب استطاعت کتا رکھنا ان کی سماجی روایت اور قانونی ضرورت ہے۔ لوگ اچھے ہیں اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ کتا پنے سے تو دور رہتے ہیں مگر کتے سے نہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ کتا رکھنا یہاں شوق نہیں، قانونی ضرورت ہے۔ ان آدھا کلو کے کتوں کو کبھی بھونکتے نہیں سنا۔ آدھا کلو کا کتا بھونکے بھی توکیا بھونکے کون سنے گا اس کی۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ یہ اصلاً بلی ہیں کتے نہیں۔ یہ کتا نما شاید اس لیے نہیں بھونکتے کہ ان کو بھونکنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ان کے مطالبات بھونکنے سے پہلے ہی پورے کر دیے جاتے ہوں گے۔ یہ بات انگلینڈ آکر پتا چلی کہ کتا بغیر بھونکے بھی کتا رہ سکتا ہے۔ ورنہ ہم تو سمجھتے تھے کہ کتا ہونے کے لیے بھونکنا ضروری ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ انگریزوں کے ساتھ میں کبھی رہا نہیں ہوں اور کتا میں نے کبھی پالا نہیں، اس لیے ’’چھٹنگے‘‘ پالتو کتوں کے بارے میری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس جہالت پر مجھے کوئی افسوس بھی نہیں ہے۔

انگریز دادے، نانے اور دادیاں، نانیاں چہل قدمی کے لیے جائیں یا شاپنگ کے لیے جب گھر سے نکلتے ہیں تو ایک کتا نما جانور ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ ڈیڑھ دو پاؤ کے اس مختصر سے جانور کو دیکھ کر بندہ مخمصے میں پڑ جاتا ہے کہ آیا یہ کتا ہے، بلی کی کوئی یورپین شکل ہے یا پھر یہ کتے کی سمری ہے یا کوئی ہائبرڈ مخلوق۔ مخمصہ لاینحل ہے اس لیے کہ اس کے گلے میں پٹا کتے والا ہے، اس کی دم کتے والی، اس کے کان بھی کتے والے مگر اس کا قد اور جسم بلی برابر! یہ بولتا بھی نہیں کہ بولے تو پتا چلے یہ بھونکتا ہے یا میاؤں میاؤں کرتا ہے۔ یہ بھی ممکن بائے ڈفالٹ اسے ساکت یعنی سائلنٹ موڈ پر رکھا گیا ہو یا muted ہو۔ پاکستانی قارئین کو یہ تو پتا ہے کہ کتا ہونے کے لیے بھونکنا ضروری ہے لیکن بھونکنے کے لیے (جسمانی طور پر) کتا ہونا شرط نہیں ہے۔ اس کے لیے بس تھوڑا سا کتا پن درکار ہوتا ہے۔ جب بھی یہ ’’کتا نما‘‘ اسمارٹ جانور سامنے آتا ہے تو میرا مخمصہ بڑھ جاتا ہے کہ اگر یہ کتا ہے تو معاشی حالات ہم سے بہتر ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ یہ انگریز اتنا مختصر سا کتا پالتے ہیں پورا کتا کیوں نہیں پالتے۔ یہ مختصر سا کتا نما دم تو ہلاتا ہے مگر نہ بھونکتا ہے، نہ غراتا ہے اور نہ کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ یہاں تو بندہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ’’لوگ کتوں کی طرح لڑتے ہیں‘‘۔ اس لیے کہ یہ کتے جب ایک دوسرے کے قریب سے گزرتے ہیں تو پرامن اور دوستانہ انداز میں ’’اسمائل‘‘ دیتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ نہیں معلوم کہ اپنے مالک مالکن کے ساتھ چہل قدمی کے علاوہ اس کی KPIs کیا ہیں۔ اس کی سالانہ پرفارمنس یعنی کارکردگی کیسے جانچی جاتی ہے۔

کتے کے علاوہ مخمصے والی دوسری بات یہ ہے کہ یہ لوگ ترقی کرتے کرتے چاند پر تو پہنچ گئے مگر لوٹے تک نہ پہنچ سکے۔ نہ ان کے واش رومز میں لوٹے ہوتے ہیں اور نہ اسمبلیوں میں۔ پتا نہیں لوٹوں کے بغیر یہ لوگ سیاست اور واش رومز میں کیسے گزارہ کرتے ہیں۔ انہوں نے ہر طرح کی مشین بنا لی۔ ہر طرح کا … بنا لیا۔ ہوائی جہاز بنا لیے، بحری جہاز بنالیے، دنیوی زندگی کی ہر سہولت حاصل کرلی۔ سڑکیں بنالیں، شاندار عمارتیں بنا لیں۔ چرچ اور کلب بنا لیے مگر نہ بنا سکے تو ایک لوٹا نہ بناسکے۔

’’ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے واش روم کے لیے لوٹا تو بنا نہ سکا‘‘

ہر طرح کی ٹیکنالوجی ان کے پاس موجود ہے لیکن لوٹے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ ہم اگر چاہیں تو ان کو یہ ٹیکنالوجی فراہم کر کے بہت سارا زر مبادلہ کما سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ان کو لوٹے کے استعمال کی تربیت بھی دینی ہوگی اور اس کے فوائد بھی بتانے ہوں گے۔ اگر یہ لوٹے کی افادیت کے قائل ہوجائیں تو (دونوں قسم کے) لوٹوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہے یہاں پر!! ’’لوٹے بنا بھی کیا جینا‘‘

یہ لوگ کیا جانیں سیاسی لوٹے اور واش روم کے لوٹے کی افادیت اور عیاشی! اپنا اپنا نظام اور اپنا اپنا نصیب ہے۔ یہاں کتا رکھنا ضروری اور لوٹا رکھنا غیر ضروری ہے جبکہ ہمارا لوٹوں بغیر نہ سیاست میں گزارہ نہ واش روم میں! کاش انگریز جاتے جاتے تھوڑی سی انسانیت اپنے وارث مقامی حکمرانوں کو تحفہ کے طور پر دے جاتے کہ ہماری زندگی بھی کچھ سکون سے گزرتی!