ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں تقریباً 195 ممالک موجود ہیں مگر جس قسم کی فہم و فراست اور دانشمندی اور دماغ پاکستان کے حکمرانوں اور ان کے درباریوں میں پایا جاتا ہے پوری دنیا میں آپ کو دیکھنے کو نہیں ملے گا، یہ فخر صرف پاکستان کے عوام کو حاصل ہے کہ ان کے حکمران کس طرح سوچتے ہیں اور کس طرح فیصلہ کرتے ہیں کہ عقل حیراں ہو جاتی ہے۔ جس کی ایک مثال ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی پاکستان آمد پر حکومت وقت کی حکمت عملی رہی۔ پنجاب کے بیش تر شہروں کو مکمل طور پر بند کر کے عام تعطیل کا اعلان کر دیا اور تمام سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر سمیت سرکاری اور پرائیویٹ اسکول بھی بند کر دیے گئے اور تمام کاروباری مراکز پر تالا ڈال دیا گیا، یہی حال شہر کراچی کا تھا جہاں تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسکول بند کر دیے گئے۔ جب کے ہمارے ملک کے تعلیمی نظام کا ویسے ہی بیڑا غرق ہے اور کون اس سے واقف نہیں اور پھر سونے پر سْہاگہ کے کسی غیر ملکی صدر کی آمد پر تمام اسکول بند یہ اسکول کے بچے ہیں یا دہشت گرد جن سے اس قدر خوف، بشمول پورے شہر کا کاروبار بھی بند کرا دیا گیا، جس سے اربوں روپے کا خسارہ بھی ہوا اور روز کمانے اور روز کھانے والوں کے چولھے بھی بند کرادیے گئے گماں ہوتا تھا کیا ایرانی صدر نے قائد اعظم کے مزار کے بعد لیاقت آباد سے ہوتے ہوئے فیڈرل بی ایریا واٹر پمپ سہراب گوٹھ یا پھر سرینہ موبائل مارکیٹ سے اپنا موبائل ٹھیک کراتے ہوئے ناگن چورنگی سے یوپی موڑ اور سرجانی تک کا سفر کرنا تھا؟ یا پھر کھارادر ڈینسوہال سے ہوتے ہوئے کیماڑی کی بندرگاہ دیکھنی تھی۔ شاید کمشنر کراچی کو اس بات کا خطرہ ہو کہ کہیں ابراہیم رئیسی صاحب کا موبائل کوئی چھین نہ لے اور آگر نہیں تو پھر ان تمام علاقوں کے اسکول اور کاروبار بند کرنے کا کیا جواز تھا؟ ایک رات قبل تمام فائیو اسٹار ہوٹل کیوں خالی کرائے گئے اس ہوٹل میں موجود غیر ملکی مہمان پاکستان کا کیا تاثر لے کر جائیں گے۔ یہ کس قسم کی حکمت عملی ہے کوئی ہمیں بتلائے تو اس قسم کی حکمت عملی پر سوالیہ نشان تو بنتا ہے۔
جس ملک میں اربوں روپے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر خرچ ہوتے ہوں وہ ایک مہمان صدر کی آمد پر پاکستان کے سب سے بڑے معاشی حب شہر کراچی کو شہر خموشاں میں تبدیل کردیا جائے تو پھر ایسے اداروں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جب بھی کوئی مہمان آئے ملک میں کرفیو نافذ کر دیں اور بس۔ دوسری طرف یہ خیال آتا ہے کہ ابراہیم رئیسی بھی کیا سوچتے ہوں گے ایک ایسا ملک جس کے حکمران مسند اقتدار پر براجمان ہو کر سب سے پہلے کشکول ہاتھ میں لیکر ملکوں ملکوں ہاتھ پھیلاتے ہوں تاکہ اس مسند اقتدار میں رہ کر اس کو بھرپور طریقے سے انجوائے کر سکیں، اس بھکاری ملک کا کسی مہمان صدر کی آمد پر ایسا استقبال فی امان اللہ ، ابراہیم رئیسی صاحب یقین خوش بھی ہوں گے کہ اس قدر شاندار استقبال کہ پچاس پچاس گاڑیاں اْن کے آگے پیچھے بھاگ رہی ہوں۔ ایسا پروٹوکول تو شاید ابراہیم رئیسی کو اپنے ملک ایران میں بھی میسر نہ ہو گا جو پاکستان نے اْن کو دیا۔ مہمان نوازی کریں یہ ہماری ثقافت ہے مگر اپنے ملک کی معیشت اور اپنی عوام کا بیڑا غرق نہیں کریں۔
مجھے یقین ہے ابراہیم رئیسی جیسے سادہ طرز زندگی گزارنے والے اور اپنے ملک اور اپنی عوام سے محبت رکھنے والے انسان ہیں وہ یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ ایک ایسا ملک جو نہ صرف قرضوں میں جکڑا ہو ا ہے اور امریکا کا غلام بنا ہوا ہے جس کو ابھی چند دن پہلے ہی آئی ایم ایف نے پاکستان کو اْن چھے ممالک کی فہرست میں جس میں عراق، شام، یمن، صومالیہ، سوڈان شامل کیا ہیں جو نہ صرف شدید معاشی دبائو کا شکار ہیں بلکہ معاشی بحران کا شکار ہیں، جس سے یہ بات ہر باشعور انسان سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کی پابندیوں سے کسی بھی ملک کی معاشی صورتحال کو کن خطرناک حالات سے دو چار ہونا پڑے گا، جس سے ملک میں کسی بھی غیر ملکی سرمایہ کاری کا دور دور تصور نہیں ہو گا ، لہٰذا حکمرانوں کو چاہیے کہ اپنے خرچے کم کریں اگر ملک بچانا ہے تو دوسری طرف یہ بھی کہا کہ پاکستان کو سنگین تنازعات کا سامنا کرنا پڑے گا اور سخت معاشی پالیسی کے حالات ان کی اقتصادی پیداوار پر اثر انداز ہوں گے، آئی ایم ایف نے یہاں تک کہا کہ دو ماہ میں جس ملک میں مسلح تنازعے کی صورت میں 25 لوگوں کی ہلاکت ہو جائیں تو اس کو تنازع ہی سمجھا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف چینی اقوام پر مہلک حملہ بھی شامل ہے، جس کے نتیجے میںگزشتہ ماہ پانچ چینی شہری ہلاک ہوئے تھے پاکستان کے لیے یہ بات باعث شرم ہے کہ اس کو ان ممالک کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے جو خانہ جنگیوں سمیت سنگین تنازعات کا سامنا کر رہے ہیں، جو ملک کے عالمی امیج کے لیے اچھا نہیں ہوتا جو غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے۔ یہ وزارت خزانہ کی جانب سے آئی ایم ایف کے معاملات کو ناقص ہینڈلنگ کو ظاہر کرتا ہے، اب فیصلہ پاکستان کو کرنا ہے کہ ملک کو کیسے بچائیں، مگر اس کے برعکس پاکستان کے حکمران ایک صدر کی آمد پر اپنے کاروبار اور اپنی معیشت کو بند کر کے اربوں روپے کا خسارہ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں یہ کون لوگ ہیں اور کہاں پائے جاتے ہیں۔