اپنے پچھلے مضمون ایرن اسرائیل جنگ میں آخر میں کچھ سوالات اٹھائے تھے اس میں ایک سوال یہ تھا کہ اسرائیل کب اور کیسے جواب دیتا ہے۔ 21اپریل کے اخبارات کی شہ سرخیوں میں اس کے جواب کی خبریں آگئیں کہ ’’اسرائیل نے ایران پر ڈرون حملہ کردیا ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق جمعہ کو علی الصباح اصفہان کے قریب دھماکے کی آواز کے بعد فضائی دفاعی میزائل نظام کو فعال کردیا گیا دفاعی نظام نے اصفہان فوجی اڈے پر داغے گئے تینوں ڈرون کو تباہ کردیا۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ ایرانی جوہری تنصیبات محفوظ ہیں۔ ’’دو دشمن ملکوں نے اپنی دوستانہ اور غیر ضرر رساں جنگ میں ایک دوسرے کو آئندہ کے لیے سنجیدہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ ایران نے ایک ہفتے پہلے سے اطلاع دے کر جو جواب دیا ہے اس میں اسرائیل کو پیغام دیا ہے کہ تمہارے سرپرست کتنے ہی طاقتور ممالک ہوں ہم تم پر براہ راست حملہ کرسکتے ہیں اور اس کے نقصان بھی شدید ہو سکتے ہیں اسرائیل نے یہ حملہ کرکے ایران کو پیغام دیا ہے کہ تمہاری ایٹمی تنصیبات ہماری ہٹ لسٹ پر ہیں اور عراق کے ایٹمی پلانٹ کی طرح اسے بھی تباہ کیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں ممالک کی اس جنگی افہام و تفہیم میں پاکستان کے لیے بھی ایک پوشیدہ پیغام ہے کہ جو اسرائیلی طیارے اصفہان کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے آئیں گے ان میں سے کچھ طیارے بھٹک بھی سکتے ہیں اور وہ ’’غلطی‘‘ سے کہوٹا کے ایٹمی پلانٹ بھی جا سکتے ہیں۔
دوسرا سوال یہ تھا کہ یکم اپریل کو شام میں ایرانی سفارتخانے پر جس میں 14 ایرانی افسران شہید ہوئے تھے اسرائیل نے کیوں حملہ کیا یہ براہ راست ایران پر حملہ تھا اس لیے کہ سفارت خانوں کی حدود اس ملک کی حدود شمار ہوتی ہیں اس سوال کے جواب کی تلاش کے لیے ہمیں پہلے اس سوال کا جواب معلوم کرنا ہوگا کہ 7اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر اتنا زبردست حملہ کیوں کیا اور اسی سے جڑا ہوا یہ سوال بھی ہے کہ جب یہ خبریں آئیں کہ حماس ایک سال سے اس حملے کی تیاری کررہی تھی اور دنیا کی نمبر ایک خفیہ ایجنسی موساد کو اس حملے کی کانوں کان خبر کیوں نہ ہوسکی جب ان سوالوں کے جواب مل جائیں گے ساری گتھیاں اپنے آپ سلجھنا شروع ہو جائیں گی۔ یہ اب سے تقریباً چالیس یا پچاس سال پہلے کی بات ہے حماس اسرائیل میں ایک خفیہ تنظیم تھی جو اسرائیل میں چھاپا مار قسم کی کارروائیاں کرتی تھی۔ خود کش حملوں کی ابتدا وہیں سے ہوئی تھی مثلاً ایک بس میں ایک خود کش جسم پر بم باندھ کر چڑھ گیا جب بس بھرگئی
تو اس نے اپنے آپ کو اڑا لیا ایک حماس مجاہد شہید ہوتا تو بارہ یہودی واصل جہنم ہوتے اسرائیلی فوج کی طرف سے جوابی کارروائی سے کچھ بے گناہ فلسطینی مارے جاتے لیکن عام فلسطینیوں میں حماس کے مجاہدین کی اہمیت اور مقبولیت روز بروز بڑھتی رہی۔ اس لیے کہ ہر دوچار ماہ بعد اسرائیل میں ایسا کوئی واقع ہوجاتا جس میں ایک مجاہد کے بدلے دس اسرائیلی شہری مارے جاتے اسرائیلی حکومت حماس کی ان پراکسی وار سے بہت پریشان تھی لہٰذا اسرائیلی حکمران دیگر سیاستدان اور یہودی دانشور سر جوڑ کر بیٹھے اور اس مسئلے کا یہ حل نکالا کے چھپے دشمن کو میدان میں لے آیا جائے تاکہ خودکش حملوں کا سلسلہ تو ختم ہو اس لیے حماس کو سیاسی گنجائش political space دینے کا فیصلہ کیا گیا اور پھر انتخابات میں حماس کے لوگ بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئے ایک طرف حماس کو عام فلسطینیوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی تو دوسری طرف القسام بریگیڈ ٹائپ کی عسکری تنظیموں نے اپنے ڈرون حملوںکے ذریعے اسرائیلی فوجی تنصیبات پر حملے شروع کردیے جواب میں اسرائیل کے مظالم بھی بڑھتے رہے۔
اب کہانی دلچسپ انداز میں آگے بڑھتی ہے امریکا اور مغربی ممالک نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے تحت عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات بنانے کا سلسلہ شروع کیا کچھ نے اپنے یہاں اسرائیلی سفارت خانے بھی کھول لیے تجارتی وفود بھی آنے جانے لگے۔ سعودی عرب جو عرب ممالک کے درمیان سیاسی و روحانی قائد کے طور پر ہے وہ بھی ان سارے مسائل کو اقتصادیات کی آنکھ سے دیکھ رہا تھا مغربی میڈیا میں ایسی خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ عنقریب اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے والے ہیں اور کبھی سعودی عرب کی طرف سے کوئی دوٹوک اور مضبوط تردید بھی نہیں آئی کسی وزیر کا کوئی ہلکا پھلکا بیان آجاتا اور ساتھ ہی یہ کہا جاتا کہ فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل ہونا چاہیے۔ حماس عرب ممالک کے اس یوٹرن کو باریک بینی سے دیکھ رہی تھی کہ کس طرح اسرائیل سے یہ ممالک محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اگر یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا تو فلسطین کا مسئلہ دنیا کے نقشے سے تحلیل ہوتا جائے گا۔ لیکن اس ضمنی سوال کا جواب بھی تو تلاش کرنا ہے کہ یہ عرب ممالک کیوں امریکا اور مغربی دنیا کے کہنے پر فلسطینیوں کی قربانیوں کو نظر انداز کرکے اسرائیل کی طرف جھک رہے ہیں۔ لیکن درمیان میں ایک دو اہم نکات ا ور سمجھ لیے جائیں جس سے عرب سیاست کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ جس زمانے میں عرب ممالک اسرائیل کے حوالے سے سخت رویہ اختیار کیے ہوئے تھے اور فلسطین کی ایک ریاستی حل پر تقریباً سب متفق تھے ایک ریاستی کا مطلب فلسطین میں فلسطینیوں کی حکومت ہو
اس وقت ایران میں شہنشاہیت تھی ایران کے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ اور سفارتی تعلقات قائم تھے اس وقت ایران کو ایشیا میں امریکا کا پولیس مین سمجھا جاتا تھا لیکن خمینی کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران کے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کشیدگی میں بدل گئے۔ دوسری طرف امریکی دبائو اور دیگر وجوہات کے باعث اسرائیل کے حوالے سے عرب ممالک کے سخت موقف میں کچھ نرمی کی شروعات محسوس ہوئیں دیگر وجوہ میں ایک اہم وجہ یاسر عرفات تھے جدوجہد کے ابتدائی دور میں یاسرعرفات فلسطینیوں کی آنکھ کا تارا تھے ان کا شمار روسی کیمپ میں ہوتا تھا لیکن دھیرے دھیرے یاسرعرفات۔۔۔ یس سرعرفات بننے لگے اور پھر یہ فلسطینی عوام کے بجائے امریکا کی آنکھ کا تارابن گئے تو انہوں نے امریکی دبائو میں فلسطین کے حوالے سے ایسے فیصلے اور معاہدات کیے اور اتنے جھک کر بلکہ زمین میں گر کر کیے کہ اس کو فلسطینی عوام نے قبول نہیں کیا ان کے معاہدات کے نتیجے میں بھی کچھ نہ ملا یعنی نہ خداہی ملا نہ وصال صنم۔ جب آپ کسی رہنما پر اعتماد کریں اور وہ آپ کے اعتماد پر پورا نہ اترے اور جب آپ کو دیوار سے لگا دیا جائے تو ایک قسم کی مایوسی اور خوف کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو پھر اس خوف اور مایوسی کے منطقی نتیجے میں چھاپا مار اور خودکش تنظیمیں وجود میں آتی ہیں اس لیے عام فلسطینیوں نے جب یہ دیکھا کہ ہماری قیادت نے بھی دھوکا دیا مسلم ممالک نے بھی ساتھ نہیں دیا پھر یہ سوچا کہ جب مرنا ہی تو مار کر مرا جائے اسی کے نتیجے میں حماس وجود میں آئی۔ (جاری ہے)