درسِ نظامی کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ (حصہ اول)

682

مسلمانوں کی تاریخ میں علومِ دینیہ کے حوالے سے دو شخصیات کا زیادہ تذکرہ ملتا ہے، ایک نظام الملک طوسی ہیں، ان کا اصل نام حسن بن علی اور لقب نظام الملک تھا اور یہ طوس کے ایک زمیندار علی کے بیٹے تھے، ان کا سنِ پیدائش 408ھ ہے، یہ بچپن سے ہی بہت ذہین اور کئی خوبیوں کے مالک تھے، اپنی ذہانت سے انتہائی کم عمری میں کئی علوم پر عبور حاصل کیا، سلجوقی عہد میں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے، اس عہد کے تمام کارنامے نظام الملک کے تیس سالہ دور وزارت کے مرہون منت ہیں، یہ عہد سلجوقیوں کا درخشاں عہد کہلاتا ہے، انہوں نے سلطان الپ ارسلان کے عہد میں ایسے جوہر دکھائے کہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی ہزاروں شمعیں روشن ہوئیں۔ انہوں نے ملک کے گوشے گوشے میں مدارس کا جال بچھا دیا اور سب سے بڑا اور اہم مدرسہ بغداد کا ’’مدرسہ نظامیہ‘‘ تھا۔

دوسری شخصیت ملا نظام الدین سہالویؒ کی ہے، ان کا سنِ ولادت 1088ھ مطابق 27مارچ 1677ء ہے۔ یہ سِہالی میں پیدا ہوئے جو صوبہ اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی کا ایک قصبہ ہے۔ آپ کے والد گرامی ملا قطب الدین سہالوی اپنے وقت کے متبحر عالم تھے، 19رجب 1104ھ مطابق مارچ 1692ء کو ملا قطب الدین کی شہادت ہوئی، آپ کے گھر بار کو جلایا گیا، چونکہ آپ کا تعلق اورنگ زیب عالمگیر سے تھا، اس لیے عالمگیر نے ان کے خاندان کو سہالی سے لکھنؤ منتقل کیا اور فرنگی محل نامی ایک بڑی حویلی ان کے نام کردی، وہاں پر انہوں نے ایک دینی مدرسے کی بنیاد رکھی۔ ملا نظام الدین نے اس مدرسے کے لیے ایک نصاب ترتیب دیا جو اپنی افادیت کی وجہ سے ملک کے تمام مدارس کا نصاب بن گیا، انھی کی نسبت سے اس تعلیمی نصاب کو ’’درس نظامی‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔ اکثر لوگوں کو دونوں بزرگوںکے ناموں میں نظام کا لفظ مشترک ہونے کی وجہ سے غلط فہمی ہوجاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ درس نظامی مدرسہ نظامیہ بغداد کے بانی نظام الملک طوسی کا بنایا ہوا نصاب ہے۔ ایسا نہیں ہے، بلکہ درس نظامی کا نصاب ملا نظام الدین سہالوی اور ان کے والدماجد ملا قطب الدین سہالوی کا بنایا ہوا نصاب ہے، ملا قطب الدین شہید نے اپنے درس کے لیے ایک خاص طریقہ اختیار کیا، وہ یہ کہ اُن کی نظر میں ہر فن پر جو کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے بہترین ہوتی تھی، اُسے پڑھاتے تھے، اس سے ان کے تلامذہ صاحبِ تحقیق ہو جاتے تھے۔ جبکہ ان کے فرزند ملا نظام الدین نے ہر علم و فن پر ایک ایک کتاب کا مزید اضافہ کر دیا، یوں بالعموم یہ ہر فن کی دو دو کتابیں پڑھاتے اور بعض ذہین طلبہ کو ایک ہی کتاب پڑھاتے تھے۔

کسی بھی نصاب کو بنانے میں اس دور کی دینی وقومی ضروریات کو مد نظر رکھا جاتا ہے، ملا نظام الدین سہالوی نے اس دور میں دینی و قومی ضروریات کو سامنے رکھ کر تمام ضروری دینی و عصری علوم کو نصاب میں شامل کیا تھا۔ قرآن و حدیث، عربی ادب، بلاغت، صرف ونحو، فارسی زبان، فقہ، اصول فقہ، کلام، منطق، ریاضی، فلسفہ وحکمت کے علاوہ فلکیات، ریاضی، طب، انجینئرنگ وٹیکنالوجی اور دیگر فنون بھی اس نصاب کا حصہ تھے اور یہ اس وقت کی دینی و قومی ضروریات پر مشتمل جامع نصاب تھا۔ یہ نصاب ۱۸۵۷ء تک ہندوستان میں رائج رہا، ۱۸۵۷ء کی جنگ نے مسلمانوں کے عروج کو زوال سے بدل دیا اور مسلمانوں کے تمام امتیازات کا خاتمہ ہوگیا، اس لیے یہ نصاب بھی سرکاری سرپرستی سے محروم ہوگیا۔

۱۸۵۷ء کے بعد انگریزی عدالتی نظام نے اسلامی عدالتی نظام اور انگریزی علوم نے اسلامی علوم کی جگہ لی تو نئے تعلیمی نظام میں ضرورت نہ ہونے کی بنا پر قرآن وحدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کی طرف لوگوں کا رجحان کم ہوگیا۔ سرکاری سرپرستی کے بغیر علماء نے قرآن وحدیث اور فقہ اور عربی وفارسی کی تعلیم نجی مدارس میں دینا شروع کی تاکہ دین اور دینی علوم سے مسلمانوں کا رشتہ برقرار رہے، آج بھی مدارس سرکاری سرپرستی کے بغیر اکابر کی لِلّٰہیت کی برکت سے چل رہے ہیں۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے اور بعد کے نصاب میں ایک بنیادی فرق یہ آیا کہ پہلے نصاب دینی اور دنیاوی علوم کا مجموعہ تھا اور ہندو مسلم عیسائی سب ایک ہی مدرسے میں اس نصاب سے مذہب ومسلک کے امتیاز کے بغیر مستفید ہوتے تھے، جبکہ بعد میں یہ نصاب دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ دینی مدارس کے نصاب کو دینی علوم سے تعبیر کیا گیا، جبکہ اسکول و کالج کے نصاب کو عصری علوم کا نام دیا گیا اور یہ تفریق آج بھی جاری ہے، مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب بعض اضافات وترامیم یعنی حذف واضافہ کے ساتھ آج بھی ’’درس نظامی‘‘ ہی کہلاتا ہے۔

درس نظامی سے پہلے بھی برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ مدارس کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، غزنوی سلطنت ہو یا لودھی سلطنت یا عالمگیر سے پہلے کی مغل سلطنت، یہاں تعلیم وتعلّم کے لیے ادارے موجود تھے، جن میں اس وقت کے رائج نصاب پڑھائے جاتے تھے، اس میں تفسیر واصولِ تفسیر، حدیث واصولِ حدیث، فقہ و اصول فقہ، تصوف، علم الکلام، عربی لغت وادب، صرف ونحو اور منطق وفلسفہ کے مضامین شامل تھے، بعد میں اس نصاب میں بڑی وسعت پیدا کی گئی تھی، چنانچہ شہریت، معاشیات، فلکیات، طبعیات، ریاضی اور طب بلکہ موسیقی تک کو نصاب کا حصہ بنا دیا اور اس نظام تعلیم نے ہر فن میں ید طولیٰ رکھنے والے افراد تیار کیے۔ جناب مجدّد الف ثانی اور نواب سعداللہ خان ایک ہی استاد کے شاگرد ہیں، ایک روحانی دنیا کے متفقہ پیشوا ہیں، جبکہ دوسرے اڑتالیس سال تک متحدہ ہندوستان کے وزیر اعظم رہے، ان کی قلم رو میں موجودہ افغانستان، پاکستان، بھارت، بنگلا دیش، سری لنکا اور نیپال شامل تھے، یعنی اس نظام تعلیم سے دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں عبقری افراد نے جنم لیا، دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک تاج محل کو بنانے والا انجینئر بھی اسی نظام تعلیم کا پڑھا ہوا تھا۔

ملا نظام الدین سہالوی کی مرتب کردہ نصاب درس نظامی کی ترتیب کچھ اس طرح تھی:

علم تفسیر میں علامہ جلا ل الدین سیوطی متوفی 1505ء، علامہ جلال الدین محلی متوفی 1459ء کی تفسیر جلالین اور علامہ ناصرالدین بیضاوی متوفی 1286ء کی تفسیر بیضاوی شامل تھی۔ علم حدیث میں أبو عبد اللہ ولی الدین تبریزی متوفی 741ھ کی کتاب ’مشکوٰۃ المصابیح‘ شامل تھی۔ علم فقہ میں علامہ برہان الدین مرغینانی متوفی 1197ھ کی کتاب ’’ہدایۃ‘‘ اور عبید اللہ بن مسعود صدر الشریعۃ متوفی 1346ھ کی کتاب شرح الوقایۃ شامل تھیں۔ علم اصول فقہ میں سعدالدین تفتازانی متوفی 1389ء کی کتاب توضیح تلویح، شیخ احمد بن ابی سعید ملا جیون متوفی 1718ء کی کتاب نورالانوار اور قاضی محب اللہ بہاری متوفی1707ء کی کتاب ’’مُسَلَّمُ الثُّبُوت‘‘ شامل تھیں۔ علم نحو میں سید شریف جرجانی متوفی: 1413ء کی کتاب نحو میر، عبدالقاھر جرجانی کی کتاب شرح مائۃ عامل، ابوحیان محمد بن یوسف بن علی متوفی: 1344ء کی کتاب ہدایۃ النحو، ابن حاجب متوفی: 1249ء کی کتاب کافیہ، عبدالرحمن جامی متوفی 1492ء کی کتاب شرح جامی شامل تھیں۔ علم الصرف میں ملاحمزہ بدایونی کی کتاب میزان، ملا حمیدالدین کاکوری کی کتاب منشعب، سید شریف جرجانی متوفی 1413ء کی کتاب صرف میر، سراج الدین اودھی کی کتاب پنج گنج، ظہیر بن محمود بن مسعود علوی کی کتاب زُبدہ، قاضی علی اکبر حسینی الہ آبادی متوفی 1678ء کی کتاب فصول اکبری اور ابن حاجب متوفی 1249ء کی کتاب شافیہ شامل تھیں۔ علم بلاغت میں علامہ سعد الدین تفتازانی متوفی: 1390ء کی کتابیں مختصر المعانی اور مطول شامل تھیں۔ علم الکلام میں علامہ سعدالدین تفتازانی کی کتاب شرح عقائد نسفی، جلال الدین دوانی متوفی 1502ء کی کتاب شرح عقائد جلالی، سید شریف جرجانی کی کتاب شرح مواقف اور میر محمد زاہد ہروی متوفی 1690ء کی کتاب رسالہ میر زاہد شامل تھیں۔

علم منطق میں قطب الدین رازی کی کتاب قطبی، قاضی محب اللہ بہاری کی کتاب سُلَّم العلوم، سید شریف جرجانی کی کتاب میر قطبی سید شریف جرجانی کی کتاب کبریٰ، اثیر الدین اَبہری متوفی: 1344 کی کتاب ایساغوجی، سعد الدین تفتازانی کی کتاب تہذیب اور عبداللہ یزدی متوفی 1575ء کی کتاب شرح تہذیب شامل تھیں۔ علم فلسفہ وحکمت میں میر حسین میبذی متوفی: 1652ء کی کتاب شرح ہدایۃ الحکمۃ، میبذی، صدرالدین محمد بن ابراہیم متوفی 1640ء کی کتاب صدرا، ملا محمود بن شیخ شاہ محمد فاروق جون پوری متوفی 1652ء کی کتاب شمس بازغہ شامل تھیں۔ علم ریاضی میں بہاء الدین عاملی متوفی 1622ء کی کتاب خلاصۃ الحساب، خواجہ نصیرالدین طوسی متوفی: 1275ء کی کتاب تحریر اقلیدس، بہاء الدین عاملی کی کتاب تشریح الافلاک، علا الدین قوشنجی متوفی 1474ء کی کتاب رسالہ قوشنجیہ اور علامہ موسی پاشا رومی متوفی 1437ء کی کتاب شرح چغمینی شامل تھیں، یہ گیارہ علوم درس نظامی میں پڑھائے جاتے تھے، اب بھی کچھ اضافہ وترمیم کے ساتھ یہی علوم پڑھائے جاتے ہیں۔