محترم حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی پاکستان کے چھٹے امیر کی حیثیت سے منصورہ میں منعقدہ ایک پُروقار تقریب میں اپنے منصب کا حلف اٹھا لیا۔ اس موقع پر انہوں نے شرکائے تقریب سے جو خطاب فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے ’’جماعت اسلامی فارم 47 اور جعلی جمہوری عمل کے ذریعے مسلط کی گئی حکومت کے خلاف ایک بڑی تحریک برپا کرے گی، کارکن اس کے لیے تیاری کریں، جو سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اس دھاندلی کے ذریعے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا مارا گیا ہے وہ بھی جماعت اسلامی کی اس تحریک میں شامل ہوسکتی ہیں۔ ملک کا نظام چلانے والے اپنی غلطی تسلیم کریں۔ محض چند لوگ اپنی خواہش کی بنیاد پر ملک کو ٹھیک نہیں کرسکتے۔ فوج پوری قوم کی ہے اور فوجی قیادت یعنی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی مرضی چلانے کے بجائے قوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ میں اسٹیبلشمنٹ سے کہتا ہوں بہت ہوگیا اب سب کو اپنی آئینی پوزیشن پر واپس آنا پڑے گا۔ آئین کو پامال کرنے والا ادارہ ہو یا فرد اس کے خلاف مزاحمت ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت چند الیکٹ ایبلز، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے اہلکاروں نے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ہم سازشوں کے ذریعے اقتدار میں آنے پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم سیاسی مزاحمت کے ذریعے قوم کو اس یرغمالی نظام سے آزادی کرائیں گے‘‘۔
محترم امیر جماعت کا یہ وہ سیاسی وژن ہے جس پر سنجیدہ غور و فکر اور آزادانہ بحث و تمحیص کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک میں جو حکومت قائم ہے اسے کوئی عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے وہ الیکشن کے نتائج میں جعلسازی کے ذریعے وجود میں آئی ہے۔ جن طاقتوں نے اس حکومت کو مسلط کیا ہے وہ اسے اپنے اشاروں پر چلانا چاہتی ہیں اور قوم کے وسیع تر مفاد کے خلاف اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس لیے قومی حمیت اور مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ موجودہ غیر نمائندہ حکومت کے خلاف ایک پُرامن احتجاجی تحریک چلائی جائے اور اسے سبکدوش ہونے اور اصل انتخابی نتائج کے مطابق قوم کے منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کرنے پر مجبور کیا جائے۔ یہ مقصد تنہا جدوجہد کے ذریعے حاصل نہیں ہوسکتا اس کے ذریعے ضروری ہے کہ ان تمام سیاسی عناصر کو یکجا کیا جائے جو انتخابی جعلسازی سے متاثر ہوئے ہیں اور اپنے طور پر سیاسی جدوجہد کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی ماضی میں بھی اس قسم کی سیاسی تحریک کی قیادت کرتی رہی ہے اور اب بھی موجودہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کو افراتفری سے بچانے اور احتجاج کو پُرامن آئینی حدود میں رکھنے والے جماعت اسلامی اس تحریک کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے۔ قائدمحترم حافظ نعیم الرحمن اس ہمہ گیر تحریک کی قیادت کرنے کی پوری صلاحیت اپنے اندر رکھتے ہیں، ہمیں یاد ہے کہ جنرل ایوب خان کی فوجی آمریت کے خلاف تحریک کی قیادت خود سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کی تھی۔ اس تحریک میں اگرچہ کونسل مسلم لیگ، نظام السلام پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی اور کئی دیگر سیکولر اور قوم پرست جماعتیں شامل تھیں۔ لیکن تحریک کی قیادت جماعت اسلامی کے ہاتھ میں تھی اور ایوب آمریت نے بھی تمام اپوزیشن جماعتوں کو چھوڑ کر صرف جماعت اسلامی کو نشانہ بنا رکھا تھا۔ اس نے دہشت گردی کے ذریعے جماعت اسلامی کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی۔ جماعت کے کُل پاکستان اجتماع پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ سیّد مودودیؒ خطاب کررہے تھے تو اُن پر براہِ راست فائرنگ کی گئی، وہ تو محفوظ رہے لیکن فائرنگ کی زد میں آکر ایک کارکن شہید ہوگیا۔ اس دہشت گردی کے باوجود اجتماع کے تمام پروگرام حسب ترتیب جاری رہے اور حکومت کو منہ کی کھانی پڑی۔ جب دہشت گردی سے بھی جماعت اسلامی خوفزدہ نہ ہوئی تو ایوب آمریت نے اس کے وجود کو ختم کرنے کی مجرمانہ کوشش کی اور اسے خلاف قانون قرار دے کر پابندی لگادی۔ سیّد مودودیؒ سمیت جماعت کے تمام قائدین کو گرفتار کرلیا گیا اور پورے ملک میں جماعت کے تمام دفاتر بند کردیے گئے اور ان کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا لیکن جماعت اسلامی نے ہار نہیں مانی، اس نے عدالت سے رجوع کیا اُس وقت کی عدالتیں آج کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر نہ تھیں، ملک کی سب سے بڑی عدالت نے جماعت اسلامی کی رِٹ منظور کرتے ہوئے اسے بحال کرنے کا حکم جاری کردیا۔ عدالت کے حکم کے تحت جماعت کے تمام گرفتار قائدین رہا کردیے گئے، دفاتر کھول دیے گئے اور جماعت اسلامی پھر ایوب آمریت کے سینے پر مونگ دلنے لگی۔ جماعت اسلامی کی جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر جنرل ایوب خان سبکدوش ہونے اور اقتدار سول نمائندوں کے حوالے کرنے پر آمادہ ہوگئے لیکن آرمی چیف جنرل یحییٰ خان نے جھپٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور قوم منہ دیکھتی رہ گئی۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس وقت بھی انہیں امریکا کی تائید و حمایت حاصل تھی۔ امریکا، پاکستان میں جمہوری نظام سے خائف تھا بلکہ وہ تمام مسلمان ملکوں میں جمہوریت کے خلاف تھا کیونکہ اس کے نتیجے میں عوام کی رائے کو غلبہ حاصل ہوتا اور عوام کی رائے نفاذِ اسلام کے حق میں تھی۔ مسلمان ملکوں کے عوام اپنے اپنے ملکوں میں اسلام کو غالب و نافذ دیکھنا چاہتے تھے لیکن امریکا خاص طور پر اور دیگر عالمی طاقتیں عام طور پر اس بات کے حق میں نہ تھیں کہ دُنیا میں کسی بھی مسلمان ملک کو اسلام کی تجربہ گاہ بننے کا موقع دیا جائے۔ چناں چہ مسلمان ملکوں میں بالعموم فوجی آمریتوں یا پہلے سے موجود بادشاہتوں کی سرپرستی کی گئی۔ پاکستان اگرچہ عوام کی جمہوری جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا لیکن یہاں بھی فوجی آمریت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور ملک کو جمہوریت کی پٹڑی سے اُتار دیا گیا۔ جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان کو امریکا کی کالونی بنادیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکا کی تابع کردی گئی۔ سوویت یونین امریکا کا عالمی حریف تھا، اس کی جاسوسی کے لیے پشاور کے قریب بڈبیر میں امریکا کو ہوائی اڈا فراہم کردیا گیا۔ نیز سینٹو اور سیٹو میں شامل ہو کر پاکستان نے خود کو امریکا کے فوجی اتحاد کا حصہ بنالیا۔ اس طرح پاکستان عملاً امریکا کا طفیلی بن کر رہ گیا۔
ایوب آمریت کے خلاف جمہوری جدوجہد کامیابی کے آخری مرحلے میں تھی تو امریکا نے فوجی آمریت کا نیا گھوڑا آگے بڑھا دیا۔ حالات بدل چکے تھے، عوام کے سیاسی شعور نے نئی انگڑائی لے لی تھی۔ جماعت اسلامی کی مقبولیت عروج پر تھی، مغربی پاکستان میں ’’شوکت اسلام‘‘ کے جلوس نے لادینی طاقتوں اور امریکا کے حواریوں پر لرزہ طاری کر رکھا تھا، ایسے میں پاکستان کے خلاف ایک نئی عالمی سازش تیار کی گئی اور اسے دو ٹکڑے کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی حوصلہ افزائی کی گئی اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو آگے بڑھایا گیا پھر اس جذباتی فضا میں عام انتخابات کا اعلان کردیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ 1970ء کے عام انتخابات شفاف اور غیر جانبدارانہ انداز میں کرائے گئے لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔ پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں اور عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں اپنے امیدوار نہ کھڑے کرکے یہ واضح اشارہ دے دیا تھا کہ وہ ان دونوں حصوں کو الگ الگ دیکھنا چاہتی ہیں۔ انتخابی نتائج کے بعد بھٹو نے ’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ کا نعرہ لگا کر اپنے دل کا چور ظاہر بھی کردیا۔ پھر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ پاکستان کی المناک تاریخ کا حصہ ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کی ذمے دار پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اس سانحہ کی تحقیقات کے لیے جو حمودالرحمن کمیشن قائم کیا گیا اس کی رپورٹ کو دبا دیا گیا اور مجرموں کی نشاندہی کے باوجود انہیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسٹیبلشمنٹ نے جنرل ضیا الحق کے ذریعے اقتدار پر پھر براہِ راست قبضہ کرلیا اور ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹ کر رکھ دی۔ وہ طیارے کے حادثے میں مارے گئے تو عام انتخابات کے ذریعے سول اقتدار بحال ہوا لیکن اسٹیبلشمنٹ اپنے ناجائز اختیارات سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہ ہوئی اور اقتدار کی راہداری میں چوہے بلی کا کھیل بدستور جاری رہا۔