دھاندلی کا شور کسی کے حق میں نہیں

506

2018 میں مجھے کیوں نکالا کی صدائیں پورے ملک میں گونج رہی تھیں ن لیگ اس سزا کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کر رہی تھی تو دوسری جانب تحریک انصاف ان سزائوں پر جشن منا رہی تھی پھر 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی نے اس جشن کو مزید چار چاند لگا دیے اور پھر ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب میاں صاحب کی جیل میں بیماری نے پوری ن لیگ کو مزید مشکل میں ڈال دیا صبح سے شام تک تمام میڈیا لمحہ بہ لمحہ یہ خبریں سنا رہا تھا کہ میاں نواز شریف کی زندگی کو سنگین خطرات لاحق ہیں ن لیگ کا موقف تھا کہ میاں صاحب کو بیرون ملک علاج کی اجازت دی جائے کافی جدوجہد کے بعد آخر کار ایک عدالتی حکم پر میاں صاحب کو تحریک انصاف کی حکومت نے بیرون ملک علاج کی اجازت دے دی جس کو تحریک انصاف کی سب سے بڑی شکست قرار دیا گیا۔ اور پھر میاں صاحب لندن کی فضائوں میں پہنچتے ہی زندگی اور موت کی کشمکش سے نکل کر سیاسی میدان میں داخل ہوگئے میاں صاحب کا یہ انداز ریاست پاکستان کی کمزوری کو منہ چڑا رہا تھا۔

وطن عزیز کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ ہمیں جناح صاحب کے بعد آج تک کوئی مخلص غیر جانبدار قیادت نصیب ہی نہیں ہوسکی، 2018 میں یقینا اس ملک کو دو روایتی جماعتوں سے نجات دلا کر ایک ایسی حکومت کو بر سر اقتدار لایا گیا جس سے ملک و قوم کو تبدیلی کی بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خان صاحب کی اس حکومت کو دو سال تک کورونا وائرس نے کام نہیں کرنے دیا تو پھر کچھ خان صاحب کی اپنی کارکردگی اور اپنے نئے نئے وزراء کی کارکردگی نے اس حکومت کو ناکام کیا جس کا بھر پور فائدہ اپوزیشن کی جماعتوں نے مل کر اُٹھایا اور خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا جس کو خان صاحب نے بیرونی سازش قرار دیتے ہوئے میاں نواز شریف کی طرح مجھے کیوں نکالا کی صدائیں بلند کر دیں۔ بد قسمتی سے ماضی کے وزیر اعظم کو بھی ایک عدالتی حکم پر باہر کھڑا کر دیا گیا تو ایک وزیر اعظم کو ایک اُس کی پارلیمنٹ نے باہر کھڑا کر دیا جس کو خان صاحب نے رجیم چینج کا نام دیا یہ دونوں اقدامات یقینا ملک و قوم کے لیے نقصان کا باعث ثابت ہوئے اور آج ملک ایک بار پھر اُسی دہراہے پر کھڑا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں قائم ہونے والی پی ڈی ایم کی حکومت نے ن لیگ کی تمام قیادت کی سزائوں کو ریلیف میں تبدیل کر دیا صرف اتنا ہی نہیں پیپلزپارٹی کی قیادت کو بھی ہر ممکن ریلیف فراہم کیا گیا جس کے نتیجے میں 2024 کا الیکشن لڑا گیا اور خلائی مخلوق کی مدد سے کامیابی نصیب میں آئی اور پھر ایک بار ماضی کی تمام اپوزیشن آج ملک کے اقتدار پر براجمان کر دی گئی ہے جس کو تحریک انصاف دھاندلی زدہ حکومت قرار دے رہی ہے یقینا عام انتخابات میں دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے گئے ہیں تین سیاسی جماعتوں کو مکمل سہولت کاری کے ساتھ اقتدار سونپ دیا گیا۔

دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرنا اپوزیشن جماعتوں کا قانونی آئینی حق ہے مگر کیا اس احتجاج کے ذریعے موجودہ حکومت اقتدار سے فارغ ہوجائے گی؟ یقینا اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج سے ایسا ممکن نہیں ہوگا البتہ یہ کمزور حکومت خود اپنے بوجھ تلے دب کر گر جائے گی اگر موجودہ اپوزیشن درست سمت کا تعین کرے تو۔ اپوزیشن کی احتجاجی تحریکوں سے یہ حکومت رخصت نہیں ہوگی سہولت کاری کی بنیاد پر آئی حکومت احتجاجوں سے نہیں رخصت ہوتی۔ ایسی حکومتوں کا مقابلہ سیاسی میدانوں میں کیا جاتا ہے ایسی حکومتوں کو عوامی مسائل کے حل انتخابی اصلاحات ملک کے اندرونی بیرونی مسائل میں ڈال کر گرایا جاتا ہے۔

تحریک انصاف، ن لیگ، پیپلزپارٹی سمیت ماضی کی تمام تر حکومتیں بے ساکھیوں پر ہی اقتدار تک پہنچی ہیں۔ کبھی بھی یہ جماعتیں عوامی مینڈیٹ کے ذریعے اقتدار میں نہیں آئیں جس نے ریاستی اداروں کو کمزور کیا ہے اگر کسی بھی ایک عوامی مینڈیٹ کے ذریعے آنے والی حکومت نے اداروں میں غیر جانبدار شفاف اصلاحات کا راستہ اپنایا ہوتا ہر ادارے کو اس کی قانونی آئینی حیثیت میں رہ کر اپنے فرائض کی انجام دہی پر زور دیا ہوتا تو شاید یہ ملک و قوم ایک عوامی مینڈیٹ کے ذریعے منتخب حکومت کا قیام دے سکتی مگر افسوس جس کو جہاں موقع ملا وہ رات کے اندھرے میں بے ساکھیاں تلاش کرتا رہا اور پھر ان ہی بے ساکھیوں کے زور پر اقتدار پر قابض ہوتے ہی ان ہی اداروں کی سر عام تضحیک کا سبب بنتا رہا ہے۔ ریاست کے بااثر اداروں کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ ان ضمیر فروش سیاستدانوں کو کب تک بے ساکھیاں فراہم کرتے رہیں گے۔ دوسری جانب عمران خان کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ احتجاج کر کے اقتدار تو شاید حاصل کر لیں مگر اس وقت ملک و قوم کو درپیش مسائل وہ حل نہیں کر سکیں گے۔ اس وقت قوم مہنگائی بے روزگاری سمیت مختلف مسائل میں گھری ہوئے ہے۔ مسائل سے نکلنے کے لیے اپوزیشن احتجاج کا راستہ اپنانے کے بجائے اصلاحات کا راستہ اپنائے حکومت اور ملک کے بااثر اداروں کی توجہ ملک و قوم کو درپیش مسائل کی جانب دلاتے ہوئے پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے ان مسائل کو حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ضمنی الیکشن میں اپوزیشن کی شکست اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قوم اداروں میں بہتر موثر غیرجانبدار شفاف اصلاحات کی منتظر ہے۔