’’روٹی تھما کر چاقو چھیننے کا وقت‘‘؟

561

پاکستان آئی ایم ایف کے قرض کا سود ادا کرنے کے لیے ایک قسط حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے اور اب وہ دوسری قسط کے لیے جس کا دورانیہ تین سال ہوگا کشکول دراز کیے کھڑا ہی تھا کہ اچانک امریکا نے چین کی تین اور بیلاروس کی ایک کمپنی کو اس الزام کے تحت پابندیوں کا شکار کردیا کہ ان کمپنیوں نے پرزوں یا کسی دوسرے مواد کی فراہمی کی شکل میں پاکستان کے بلیسٹک میزائلوں کی تیاری میں مدد دی ہے۔ یہ پابندی عملی طور پر ان کمپنیوں پر کس طرح اثر انداز ہوگی یہ تو الگ بات ہے مگر اس کے دو مقاصد بہت واضح ہیں۔ اوّل یہ کہ پاکستان اور چین کے اسٹرٹیجک تعاون اور تعلق پر ایک گہرا وار ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ امریکا اس تعلق کو بین الاقوامی اداروں کے ذریعے بھی کمزور کر سکتا ہے دوسرا اس کا سیدھا سادہ تعلق پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے ہے جس پر روز اوّل سے امریکا کی ’’نظر ِکرم‘‘ رہی ہے۔ امریکا نے اس پروگرام کو ہمیشہ پابندیوں کا شکار بنایا اور پاکستان اور امریکا کے درمیان ترک تعلق کا پہلا سلسلہ بھی اس وقت چل نکلا تھا جب اسی کی دہائی میں پاکستان سوویت یونین کے خلاف امریکا کی جنگ کا اگلا مورچہ تھا کہ پریسلر ترمیم کے تحت اسے پابندیوں کا شکار کیا گیا۔

امریکا کے سینیٹر لیری پریسلر بھارت دوست سیاسی راہنما تھے اور اس کے بعد انہیں بھارت میں ایک ہیرو کی طرح چاہا گیا۔ واجپائی سے اڈوانی تک بہت سے لوگ ان کی آرتی اُتارتے تصویروں میں دکھائی دیتے رہے۔ اس ترمیم نے امریکا کے اگلے مورچے کو دی جانے والی امداد کو امریکی صدر کی ذاتی ضمانت سے مشروط کیا تھا۔ گویا کہ امریکی صدر کو یہ ضمانت دینا تھی کہ دی جانے والی یہ امداد پاکستان نہ تو اپنے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے اور ان پہلے سے تیار ہتھیاروں کی جدت اور وسعت کے لیے استعمال کرے گا۔ اس کے ساتھ امریکا نے پاکستان کی طرف سے رقم حاصل کرنے کے باوجود ایف سولہ جہازوں کی فراہمی روک دی تھی۔ ایف سولہ جہاز پاکستان کے لیے ٹین ڈبے ہی تھے کیونکہ ایک شرط کے تحت ان کا استعمال بھارت کے خلاف نہیں ہوسکتا تھا۔ گویا کہ یہ صرف نمائش کے لیے اور تیئس مارچ کو رنگا رنگ دھواں چھوڑنے کے کرتب دکھانے کے لیے فراہم کیے جا رہے تھے۔ پریسلر ترمیم کے بعد یہ بے ضرر اور نمائشی جہاز بھی روک دیے گئے۔ یوں پریسلر ترمیم کے تحت عائد ہونے والی پابندیوں نے پاکستان اور امریکا کے درمیان پہلی واضح بداعتمادی پیدا کی۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ امریکا پاکستان کا مشکل کا ساتھی نہیں بلکہ یہ پاکستان کو اپنے مشکل وقت میں استعمال کرتا اور پاکستان کے مشکل وقت میں ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتا ہے۔ جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل اس سوچ کے اعلانیہ ترجمان اور شارح تھے۔ یہیں سے پاکستان کی اسٹیبشلمنٹ نے چین کے ساتھ دفاعی تعاون کو بڑھانے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اس کے جہازوں، میزائلوں اور پرزوں کا زیادہ تر انحصار چین پر ہوتا چلا گیا۔ اس میں ایک اور سہولت کسی مشکل وقت میں زمینی رسد کا آسان اور زمین کے ذریعے جاری رہنا بھی تھا۔ اس لیے پاکستان اور چین کا دفاعی تعاون امریکا کا اہم ہدف رہا۔ پریسلر ترمیم اس لحاظ سے ناکام ثابت ہوئی کہ اس کی موجودگی میں پاکستان نے ایٹمی طاقت حاصل کر لی۔

پاکستان کو معاشی طور مفلوج کرنے میں یہی سوچ کارفرما تھی کہ جب یہ ملک کلی طور پر آئی ایم ایف کے رحم وکرم پر آجائے گا تو اس کے ہاتھ میں روٹی تھما کر چاقو چھین لیا جائے گا۔ نائن الیون کے بعد تو یہ سوچ احتیاط کے ساغر سے پوری طرح چھلک پڑی تھی۔ آج پاکستان مکمل طور پر آئی ایم ایف کے وینٹی لیٹر پر آچکا ہے اور اس عالم بے خودی میں سفید کاغذ پر انگوٹھا لگوانا نہایت آسان ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی بہت خاموشی سے پاکستان کا دورہ کرکے چلے گئے تھے۔ اس دورے کا ماحاصل یہ تھا کہ پاکستان اور عالمی ایجنسی کے درمیان ماحولیات، سائنس، ٹیکنالوجی، زراعت کی ترقی کے لیے ایٹمی توانائی کے استعمال میں تعاون کا فیصلہ ہوا۔ بعض لوگوں کا اصرار تھا کہ ہو نہ ہو اس دورے کا تعلق معاشی بحران کے ہمالیہ تلے کراہتے اور سسکتے ہوئے ملک کی ایٹمی سرگرمیوں سے تھا۔ بظاہر تو کہا گیا کہ عالمی ادارے کے سربراہ پاکستان میں نیو کلیر ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کے لیے تعاون کا جائزہ لیں گے۔ اب پاکستان معاشی بدحالی کے جس بھنور میں گھر چکا ہے وہاں قیاس آرائیوں اور افواہوں کا پیدا ہونا بھی فطری ہے۔

ایک دور تھا جب پاکستان کی ترقی کے سفر کے لیے ایک محاورہ استعمال ہوتا تھا ’’کانٹے سے کہوٹا تک‘‘ یہ محاورہ اس وقت سے مستعمل تھا جب بھارتی صحافی کلدیپ نیئر اہتمام کے ساتھ اسلام آباد بلوائے گئے جہاں ان کی ملاقات پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی علامت ڈاکٹر قدیر خان سے ہوئی تھی۔ ڈاکٹر خان نے ان کے کان میں ایک جملہ بولا تھا کہ پاکستان نے یورینیم کی افزودگی کا عمل شروع کر دیا ہے اور وہ اب ایٹم بم بنانے کے پوزیشن میں آچکا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے یہ جملہ بہت سمجھ کر بولا تھا وہ پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کا غیر رسمی اعلان کرکے عالمی طاقتوں کو بھی پیغام دے رہے تھے۔ پاکستان کی ترقی اور محفوظ اور مستحکم ہونے کے لیے اس کی ایٹمی طاقت کو ایک علامت اور استعارہ بنایا گیا۔ پاکستان کو اس طاقت سے محروم رکھنا مغرب اور بھارت کا خواب تھا۔ یہ ان کے مستقبل کے ارادوں اور عزائم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھا۔

ایک عرصے تک تو پاکستان کہوٹا میں ایسی کسی بھی سرگرمی سے انکاری رہا۔ امریکا اسرائیل اور بھارت ہمیشہ اس تجسس میں مبتلا رہے کہ پاکستان کی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت کس سطح کی ہے۔ وہ اس حقیقت کو کبھی نہ پاسکے یہاں تک کہ پاکستان نے خود جتنا اور جو کچھ بتانا نہ چاہا ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان کہوٹا کو اس طرح چھپائے رہے جیسے کہ مرغی چوزوں کو اپنے پروں تلے چھپائے رکھتی ہے۔ غلام اسحاق خان کا امریکی اہلکار رابرٹ گیٹس کے ساتھ ایک تاریخی جملہ کہا تھا۔ رابرٹ گیٹس نے غلام اسحاق خان کو کہا کہ ’’پاکستان ایٹم بم کا انکار کر رہا ہے جبکہ اگر آپ کے گھر کے پچھواڑے میں کوئی چیز ایسی ہے جو بطخ کی طرح چلتی ہے بطخ کی طرح بولتی ہے تو پھر و ہ بطخ ہے‘‘ جس پر اسحاق خان نے ترنت جواب دیا کہ اگر میں کہتا ہوں کہ وہ بطخ نہیں ہے تو پھر وہ بطخ نہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکا جنرل ضیا الحق کی موت اور افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے فیصلے کے بعد پوری طرح اس کوشش میں تھا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو محدود فریز یا ختم کر دیا جائے۔ امریکا اس شبے کا اظہار کررہا تھا کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کے لیے دی جانے والی امداد ایٹم بم کی تیاری میں صرف کی ہے اور یوں امریکا کو افغان معاملات میں اُلجھا کر ایٹمی پروگرام مکمل کر لیا ہے۔ اس مقصد کے لیے امریکی کانگریس نے پریسلر ترمیم بھی متعارف کرائی تھی جس کے تحت پاکستان کو ہر سال دی جانے والی امریکی امداد کو صدر امریکا کی ضمانت سے مشروط کیا گیا تھا۔ اس بات کی شخصی ضمانت کو وزن دینے کے لیے امریکی وفود مسلسل پاکستان آکر اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار بنانے کی مہم میں کہاں تک کامیابی حاصل کر چکا ہے۔ یہیں ان کا صدر غلام اسحاق خان سے یہ دلچسپ اور تاریخی مکالمہ ہوا تھا۔

پاکستان نے امریکی وفود کو کہوٹا کا دورہ کرنے کی اجازت کبھی نہیں دی۔ جب بھی مغرب نے اس طاقت کو چھیننے کی کوشش کی پاکستان نے کبھی مغرب کو جُل دینے کی کوشش کی تو کبھی ڈٹ کر امریکا کی بات ماننے سے انکار کیا۔ نائن الیون کے بعد امریکا مزید غضب ناک ہوگیا اور یہ اصولی فیصلہ کر لیا گیا کہ کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان ان ممالک میں سرِ فہرست تھا۔ لیبیا کے ایٹمی پروگرام کو لپیٹنے کا کام انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن سے لیا گیا۔ لیبیا کی حکومت اور امریکا کے درمیان سہولت کاری کا فریضہ اسی ادارے نے انجام دیا۔ یہ کام کرتے ہوئے لیبیا کے صدر معمر قذافی کو کچھ رعایتوں کا جھانسا دیا گیا۔ لیبیا کو مالی مدد کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس وقت لیبیا ایک خوش حال ملک تھا اور اس کے لوگ ایک فلاحی ریاست کی سہولتوں سے مستفید ہو رہے تھے۔ قذافی مدت دراز سے امریکا کے ساتھ کشمکش میں تھے اور امریکا ان کے خلاف سازشوں میں مصروف تھا اور کئی بار ان کی جان لینے کی کوششیں کی جا چکی تھیں۔

قذافی کی طرف بدلے میں صلح کا ہاتھ بڑھایا گیا تھا۔ لیبیا کا ایٹمی مواد جہازوں میں بھر کر باہر منتقل کیا گیا۔ جب لیبیا بن دانتوں کا شیر بن گیا تو ایٹمی مواد بھی ہاتھ سے گیا اور معمر قذافی کے گرد لگا ہوا سرخ دائرہ بھی ختم نہ ہوا بلکہ ایک روز مغربی حمایت یافتہ ملیشیا نے معمر قذافی کو ایک پائپ کے اندر سے برآمد کرکے عوام کے ہاتھوں پتھروں اور لاٹھیوں سے مروادیا۔ لیبیا کے ہاتھوں سے ادھورا ایٹم بم چھیننے کے بعد اس کا جو حال ہوا وہی حالت آج یوکرین کی دوسرے انداز سے بن گئی ہے۔ جہاں یوکرین کو ڈی نیوکلیئر ائز کر دیا گیا اور برسوں بعد روس نے یوکرین پر چڑھائی کرکے اینٹ سے اینٹ بجادی۔ پاکستان کے فیصلہ سازوں کو دھول میں اٹے اور بدحواسی سے بھاگتے ہوئے یوکرینی صدر دلادیمر زلنسکی اور بیتے ہوئے کل سیوریج پائپ سے زخم زخم برآمد ہونے والے قذافی سے سبق سیکھنا ہوگا کہ جو چاقو چھوڑ کر بھی سکون کا نوالہ نہ کھا سکے۔