ایران کے صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کا تین روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد واپس جاچکے ہیں۔ یہ دورہ دو مرحلوں میں تھا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں صدرو وزیراعظم سے ملاقات، تجارتی اور اقتصادی منصوبوں پر مذاکرات اور معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ دوسرے مرحلے میں ایرانی صدر لاہور اور کراچی آئے جہاں انہوں نے اقبال اور قائد کے مزار پر حاضری دی۔ جامعہ کراچی نے صدر ابراہیم رئیسی کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی۔ ایرانی صدر کے دورے کے دوسرے مرحلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملک ایک وسیع تر اُمت ِ مسلمہ کا حصہ ہیں، قومی ریاستوں کے قیام کے باوجود امت مسلمہ کا تصور بین الملکی تعلقات کا بنیادی نکتہ ہے۔ لاہور اور کراچی کے دوروں میں ایرانی صدر کے جذبات کا اظہار اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں ملک ایک مشترکہ تہذیب اور تاریخ کے وارث ہیں۔ دونوں ملکوں کے مسلمان محض حکومتوں کے تعلقات پر انحصار نہیں کرتے، اسی لیے ایرانی صدر نے پاکستان کے عوام سے بھی خطاب کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ایرانی صدر کا دورہ جن حالات میں ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ عالمی استعماری سامراجی نظام کی سفاکی، درندگی اور وحشت و درندگی دنیا کے سامنے عیاں ہوچکی ہے۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک کی مدد اور سرپرستی میں اسرائیل غزہ کے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی پر تلا ہوا ہے۔ غزہ کے شہریوں پر اسرائیلی بمباری کے 200 دن پورے ہوگئے ہیں اور ابھی تک مظلوم اور محاصرے کا شکار شہری آبادی کے تحفظ کے لیے کوئی ملک عملی اقدام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس بارے میں پاکستان سمیت مسلمان حکومتوں کا رویہ شرمناک ہے۔ جن ملکوں نے نسبتاً زیادہ قوت کے ساتھ اسرائیل کی مذمت اور فلسطین کی حمایت کی ہے ان میں ایران اہم ملک ہے۔ اسرائیل بھی علی الاعلان ایران کے خطرے سے آگاہ کرتا رہا ہے۔ اس دوران میں اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا جس کا جواب ایران نے دیا۔ اس پس منظر میں ایرانی صدر کے دورئہ پاکستان کی طرف پاکستانی قوم اور دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ ایرانی صدر کے دورے سے قبل سعودی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے پاکستان کے دورے کیے ہیں جس میں اقتصادی اور دفاعی معاہدے کیے گئے ہیں۔ یہ دورے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورئہ پاکستان کی تیاری بھی ہیں۔ ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اس لیے بھی اہمیت اختیار کرگیا کہ دونوں برادر ملکوں میں بعض تنازعات اپنی حدود سے پار کر گئے تھے جس پر دونوں ملکوں کی قیادت نے حکمت اور تدبر سے قابو پالیا۔ اس وقت ایسے حالات ہیں جس میں اتحاد امت کی ضرورت ہمیشہ سے بڑھ گئی ہے۔ فلسطین کے قضیے اورمسئلے نے ماضی میں عالم اسلام کے اتحاد کی ضرورت کا احساس دلایا، رباط اور لاہور کی اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد او آئی سی میں تبدیل ہوا، لیکن مسلم حکمرانوں کے بے بصیرتی نے اس ادارے کو مفلوج کردیا اور اتحاد بین المسلمین کا خواب ابھی خواب ہی ہے۔ المناک منظر یہ ہے کہ غزہ کے فلسطینی مسلمان صرف ایمان اور استقامت سے اسرائیل کی ناجائز ریاست کے ظلم کو برداشت کررہے ہیں۔ پوری دنیا کے مسلمان یہ جان گئے ہیں کہ مسئلے کی اصل جڑ امریکا ہے۔ امریکا نے ایرانی صدر کے دورہ پاکستان پر جو دھمکی آمیز بیان جاری کیا ہے وہ غیر متوقع نہیں ہے، امریکا برادر مسلمان ملکوں کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو بھی تزویراتی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ جس کی بنیاد اس کے استعماری اور سامراجی مقاصد ہوتے ہیں۔ ایرانی صدر کے دورہ پاکستان اور تجارتی معاہدوں پر امریکی دفتر خارجہ نے پاکستان پر اقتصادی پابندیوں کی دھمکی دے دی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کو ایران کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرتے وقت پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنا چاہیے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے بیان میں پاکستان کا نام لیے بغیر کہا گیا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والے کسی بھی ملک یا شخص کو امریکی پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم گزشتہ 20 برس سے پاکستان میں ایک سرکردہ سرمایہ کار ملک ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی کامیابی امریکا کے بھی مفاد میں ہے اور ہم پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری کو جاری رکھنے کے منتظر ہیں۔ اس بیان سے پہلے ایرانی صدر کے دورہ پاکستان میں اس بات کا اتفاق کیا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات کو 10 ارب ڈالر تک پہنچایا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے 8 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ پاکستان کی معاشی صورتِ حال بہت خراب ہوچکی ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے اسباب میں 30 برسوں کے اندر ہونے والی امریکی سرمایہ کاری بہت اہم وجہ ہے، اس لیے کہ ان 30 برسوں میں ہونے والی ’’امریکی وار آن ٹیرر‘‘ بھی ہے، جس کے لیے اس وقت کے فوجی حکمراں کو ’’دھمکی‘‘ اور ’’لالچ‘‘ دے کر پاکستان کی فوج کو امریکا کے لیے کرائے پر دے دیا گیا۔ اب اسی طرح امریکا ایک بار پھر دھمکی اور لالچ سے کام لے رہا ہے۔ یہی امریکی خوف ہے، جو حکومت پاکستان کو فلسطین کے مسئلے پر کوئی ٹھوس قدم اٹھانے سے روک رہا ہے۔ ایران کے صدر نے تو کہا ہے کہ غزہ پر ایران اور پاکستان کا موقف ایک ہے۔ امت اور قوم اس دعوے کا عملی ثبوت دیکھنے کی منتظر ہے۔