نکاح نامے میں طے امور پر ابہام کا فائدہ بیوی کو ملے گا، سپریم کورٹ کا فیصلہ

341

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ نکاح نامے میں طے ہونے والے معاملات میں اگر ابہام پایا جاتا ہے تو اس کا فائدہ بیوی کو ملے گا۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ نکاح نامے میں درج شرائط و ضوابط طے کرنے سے پہلے دلہن کی رضا مندی ضروری ہے اور دلہن کو اس بات کی مکمل آزادی ہے۔ بعد ازاں نکاح نامے کے کسی کالم یا انٹری میں طے امور میں کوئی ابہام پایا گیا یا شک کی گنجائش نکلی تو اس کا فائدہ بیوی کو ملے گا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 2 رکنی بینچ کلے تحریر کردہ 10 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتیں نکاح ناے میں طے ہوئے معاملات کی تشریح کرنے سے پہلے اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ امور طے کرنے سے پہلے دلہن کو آزادی کے ساتھ رضامند کیا گیا تھا یا نہیں؟۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ اگر دلہن کی آزادانہ مشاورت کے بغیر نکاح نامے کا کوئی حصہ کوئی دوسرا شخص پُر کرے تو اسے دلہن کے مفاد یا اس کے حقوق کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ نکاح نامے میں درج کسی بھی مبہم معاملے کو بیوی کے خلاف تب تک استعمال نہیں کیا جا سکتا جب تک یہ نہ ثابت کرلیا جائے کہ نکاح نامے کے تمام کالمز کا دلہن کو علم تھا اور اس کی آزادانہ رضامندی کے ساتھ تمام شرائط و ضوابط طے پائے ہیں۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہےکہ مردوں کے غلبے والے معاشرے میں عمومی طور پر دلہن کی طرف سے شرائط و ضوابط مرد حضرات ہی طے کرتے ہیں۔

عدالت نے بتایا کہ اس کیس کے حقائق یہ ہیں کہ میاں بیوی میں طلاق ہوئی ،خاتون نے نکاح نامے میں طے کردہ شرائط کے تحت جہیز اور دیگر سامان کی واپسی کے لیے عدالت سے رجوع کیا اور جب ہائی کورٹ میں مقدمہ پہنچا تو عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ خاتون کو نکاح نامے کےکالم نمبر 17 میں بیان کردہ پلاٹ دیا جائے۔ اس کے خلاف درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے رجو ع کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ نکاح نامے کے کالم نمبر 17 میں لکھے گئے پلاٹ کا مقصد یہ تھا کہ پلاٹ پر گھر تعمیر کیا جائے گا اور جب تک نکاح برقرار رہے گا خاتون وہاں مقیم رہ سکتی ہے۔ تاہم نکاح نامے میں ایسی وضاحت نہیں تھی ۔

سپریم کورٹ کے مطابق یہ قانونی سوال تھاکہ اگر نکاح نامے کی شرائط وضوابط میں کہیں ابہام رہ جائے تو اسےکیسے حل کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دے کر اپیل خارج کردی۔