ہنی مون

421

من حیث القوم ہمارا یہ یقین ایمان کی حد تک پختہ ہے کہ کوئی مسلمان ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاسکتا مگر مقتدر طبقہ ڈسے جانے کی لت کا اتنا عادی ہوچکا ہے کہ اس کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ آثاو قرائن بتا رہے ہیں کہ حکومت عالمی مالیاتی ادارے کی دہلیز پر سرنگوں ہونے کے لیے تیار ہے بس انتظاریہ ہے کہ کب بلاوا آتا ہے؟ وزیر ِ اعظم میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ نگران حکومت میں ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا تھا اب معیشت کو بحال کرنے کے لیے ہر ممکنہ کوشش بروئے کار لائیں گے اور عوام یہ سوچ کر حیران ہے کہ عدلیہ اور حکومت ہاتھ گھما کر ناک پکڑنے کی کوشش کیوں کرتی ہے؟ حالانکہ عدلیہ اور حکومت کی ساکھ بحال کرنے کے لیے ممکنہ طریقے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں۔ عدلیہ فوری اور بروقت انصاف کی فراہمی کے لیے غورو غوض کرنے کے لیے فل کورٹ اجلاس بلاتی ہے اور حکومت معیشت کی بحالی کے لیے اتحادی پارٹیوں سے مشاورت کرتی ہے مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔

اس حقیقت سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے کہ عدلیہ جعلی مقدمات کی سماعت پیشی در پیشی کے اذیت ناک عمل اور لیفٹ اوور کے ہتھوڑے سے دست بردار ہوجائے تو بروقت انصاف کی فراہمی قطعاً مشکل نہیں اور حکومت نا جائز مراعات و سہولتوں سے کنارہ کشی اختیار کرلے تو عوام کو خودکشی کرنے کے ضرورت پیش نہ آئے۔ سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو دی جانے والی سہولتیں ختم کر دی جائے تو ملکی معیشت کی بحالی کوئی مشکل اقدام نہیں۔ المیہ یہ ہی ہے کہ افسرانِ بالا کو ایسی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جن کی فراہمی کے لیے عوام پر ٹیکسوں کا عذاب نازل کیا جاتا ہے۔ کسی کو یہ سوچنے کی توفیق نہیں کہ مفت بجلی، مفت پٹرول اور دیگر مراعات کو کیا جواز ہے؟ 17ویں گریڈ کے ڈپٹی کمشنر کو جو مراعات دی جاتی ہیں وہ 22ویں گریڈ کے کسی تعلیمی ادارے کے افسر کو کیوں نہیں دی جاتیں؟

سابق امیر ِ جماعت محترم سراج الحق نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن کے دوران 300 یونٹ مفت بجلی فراہم کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا اْسے پورا کرے مگر عوام جانتے ہیں کہ یہ مطالبہ صحرا کی صدا بن کر رہ جائے گا۔ قومی المیہ ہی یہ ہے کہ الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد حکومت سازی کرنے کے لیے اتحادی جماعتوں کی جی حضوری کے سوا کچھ نہیں کیا جاتا کیونکہ اتحادی جماعتیں ریاست کے اندر ریاست کا کردار ادا کرنا ہی اپنا نصب العین اور سیاسی منشور بنا لیتی ہیں۔ بھارت کے ایک صوبائی حکومت اپنے وعدے کے مطابق 300 یونٹ مفت بجلی فراہم کررہی ہے۔

سابق امیر ِ جماعت اسلامی نے دیگر کامیاب پارٹیوں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ عوام سے کیے گئے وعدے پورے کریں عوام کی معاشی حالت اتنی پتلی کر دی ہے کہ وہ اپنے خاندا ن کو پتلی دال کے سوا کچھ کھلانے کے قابل ہی نہ رہے مگر حکمران طبقے کا ہنی مون ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر نے حکمرانوں کو مشورہ دیا ہے کہ اپنا وعدہ پورا کریں اْنہوں نے معیشت کے انچارج پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے عوام کو حیران کر دیا ہے اور یہ بات ہے بھی حیرت کی کہ حکومت نے ایک ایسے شخص کو وزیر بنایا ہے جو وزارت کے بعد پاکستانی بنا ہے۔ اْنہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے مزید ٹیکس لگائے جائیں گے تاکہ حکمران اپنی عیاشیاں برقرار رکھ سکیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ بار بار ایک ہی سوراخ سے کیوں ڈسا جاتا ہے؟ عالمی مالیاتی کے ادارے کی دہلیز پر 23 بار جھولی پھیلانے سے کیا حاصل ہوا؟ اور اب 24 ویں بار کشکول اْٹھانے سے کیا ملے گا؟