اسلامی بینکاری کی مشکلات

554

سود (ربا یا انٹریسٹ) حرام ہے۔ قرآنی آیت کی روشنی میں سود اس قدر قبیح جرم اور بڑا گناہ ہے کہ اسے مالک کائنات اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ تصور کیا گیا ہے۔ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہو جائو کہ اللہ اور اْس کے رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کرلو (اور سْود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔

سود کے بارے میں حدیث میں بھی سخت وعید آئی ہے۔ سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریمؐ نے سود کھانے (لینے) والے پر، سود کھلانے (دینے) والے پر، سودی لین دین لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر سب ہی پر لعنت فرمائی ہے نیز آپؐ نے فرمایا کہ یہ سب (اصل گناہ میں) برابر ہیں۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:سیدنا ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: سود اگرچہ بڑھتا جائے لیکن اس کا انجام ہمیشہ قلت (کمی) کی طرف ہوتا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح) رائج لادین استحصالی بینکاری نظام سود پر ہی چلتا ہے اور سود معیشت، قدرت، فطرت اور ربّ کائنات اور اس کے رسولؐ سے جنگ ہے۔ اوّل تو مخلوق کا خالق کائنات کے خلاف جنگ کا تصور ہی ممکن نہیں۔ لیکن اگر یہ جنگ ہو تو مخلوق کے لیے قلت، ذلت اور تنگی و رسوائی کے سوا اس میں کچھ نہیں!

ہم قرآن کو ماننے والے اپنے کمزور سیاسی اور غلام معاشی نظام کی وجہ سے ربّ کے باغی مغربی بینکاری نظام کا حصہ بن کر اپنے مالک کے خلاف اس سراسر نقصان اور تباہی والی جنگ میں شریک ہیں۔ ربّ کے بندوں کو اس صورتحال کا ہمیشہ ہی احساس رہا ہے۔ اللہ کا خوف رکھنے والے اہل خرد برس ہا برس سے اس جنگ سے نکلنے کے لیے حل کی تلاش میں رہے۔ ایک حل یہ تجویز ہوا کہ بینک سے کوئی تعلق نہ رکھا جائے۔ لیکن بینکاری نظام جس انداز سے ہمارے نظام پر مسلط کیا گیا ہے یہ بینک سے مکمل قطع تعلق ممکن نہ نظرآیا۔ پھر یہ حل پیش کیا گیا کہ جتنا ممکن ہو سکے بینک سے کم سے کم تعلق رکھا جائے۔ یہ بھی کہا گیا کہ بینک میں کھاتے نہ کھولے جائیں۔ یہ حل بھی کامیاب نہ ہوسکا تو یہ کہا گیا کہ مجبوری ہو تو صرف کرنٹ اکاؤنٹ کھولا جائے۔ بچت کھاتے اگر کھولے بغیر چارہ کار نہ ہو تو اس پر ملنے والا سود نہ لیا جائے۔ اگر یہ سود لیں تو خود استعمال نہ کریں۔ کسی غریب کو ثواب کی نیت کے بغیر دے دیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

بینکاری کے عفریت نے یہ سارے حل ناکام کردیے تو سودی بینکاری کے متبادل کے طور اسلامی بینکاری رائج کرنے کا سوچا گیا۔ خدشہ تھا کہ طاقتور عالمی سرمایہ دار قوتوں کا پروردہ صدیوں پرانا مضبوط بینکاری نظام شریعت کے اصولوں کی پاسداری والے نظام کو پنپنے نہیں دے گا۔ عوام کی طلب کو دیکھتے ہوئے مسلم ممالک کے حکمرانوں نے اسلامی یا غیر سودی بینکاری اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت تقریباً تمام مسلم ممالک اور کچھ غیرمسلم ملکوں اسلامی بینکاری کے نام سے جو نظام رائج ہے وہ مسلمانوں کی اکثریت کے اعتماد سے محروم نظر آتا ہے۔ پاکستان جیسے مسلم اکثریت والے ملک میں اسلامی بینکاری صارف کی واحد ترجیح نہیں ہے۔

چوبیس یا چالیس سال کے عرصے کے بعد بھی مجموعی بینکاری میں اسلامی بینکاری کا حصہ 25 فی صد کے لگ بھگ ہے۔ پچھتر فی صد مسلم صارفین اسلامی نہیں، غیر اسلامی یا سودی بینکاری کے ساتھ تعلق کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بظاہر شریعت کے اصولوں کی پابندی کے باوجود یہ نظام اپنی اصل سے دور نظر آتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ اسلامی بینکاری سودی بینکاری کے تحت کام کر رہی ہے۔ مسلم ممالک کے مرکزی بینکاری نظام اصلاً سود کے محافظ ہیں۔ اس لیے رائج اسلامی بینکاری بہت ساری مصلحتوں، مجبوریوں اور جکڑ بندیوں کا شکار ہے۔ جکڑ بندیوں اور مصلحتوں کا شکار رائج اسلامی بینکاری بوجوہ مثالی نظام نہیں۔ موجودہ رائج صورت میں نہ تو یہ عقیدے کے پابند اور اپنے ایمان اور آخرت کے بارے فکر مند مسلمان صارفین کو اپنی طرف راغب کرنے کی سکت رکھتا ہے اور نہ ہی اس سے اسلام کے معاشی مقاصد کے حصول کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔

یہ غنیمت ہے کہ اتنی دشواریوں کے باوجود یہ نظام چار پانچ دہائیوں سے اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہ بھی قابل اطمینان بات ہے کہ اس نظام کو علماء کی سرپرستی حاصل ہے۔ بینکوں میں موجود شریعہ بورڈز اور شریعہ ایڈوائزرز اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس کی پراڈکٹس اور خدمات اور دیگر معاملات سود اور حرام عوامل سے پاک رہیں۔ اطمینان کی ایک اور بات یہ بھی ہے کہ اسلامی بینکاری سے تعلق رکھنے والے صارفین کم از کم اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ کی حالت میں تو نہیں ہیں۔ دیگر تمام معاملات کی طرح اسلامی بینکاری میں بھی اصلاح اور بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ مرکزی بینک اور شریعہ ایڈوائزرز کو اس کے لیے بہتر منصوبہ بندی اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ قواعد وضوابط کے اندر رہتے ہوئے عدم اعتماد کے حامل صارفین کے اطمینان کے لیے بہت ساری چیزیں بہتر کی جاسکتی ہیں۔ اس کے لیے اہم قدم کے طور پر اسلامی بینکاری کے حقیقی تصورر کو خراب کرنے والے عوامل جیسے حیلوں کے استعمال اور رعایتی یا ذیلی اصولوں کو بنیادی اصولوں پر ترجیح دینے سے اعراض کرنا ہوگا۔ سود کے حرام ہونے کے واضح تصور اور ایمان کے باوجود پچھتر فی صد صارفین کا سودی بینکاری سے تعلق قائم رکھنا یا بالفاظ دیگر اسلامی بینکاری سے دور رہنا تشویش کی بات ہے۔ مرکزی بینک کے اسلامی بینکاری سے متعلق ذمہ داران (اور بینکوں کے شریعہ ایڈوائزرز) کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو اسلامی بینکاری کی قبولیت میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ پھر اس جائزے کی روشنی میں اصلاح اور بہتری کا موثر لائحہ عمل بنایا جائے۔