ہم ان کالموں میں گاہے گاہے لالۂ صحرائی کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بیسویں صدی کی پانچویں، چھٹی اور ساتویں دہائی میں اپنی پُراثر اور شگفتہ تحریروں سے دھوم مچا رکھی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد جب وطن عزیز میں نظریاتی ادب کا غلغلہ بلند ہوا اور ترقی پسند کہلانے والے لبرل ادیبوں کے ساتھ نظریاتی کشمکش شروع ہوئی تو اس کشمکش میں لالۂ صحرائی نے بہت سے ادبی معرکے سر کیے۔ ان کا قلم کسی خاص صنف ِ ادب تک محدود نہ تھا۔ وہ سنجیدہ علمی موضوعات، حالاتِ حاضرہ، طنزومزاح، افسانے، رپورتاژ، خاکے، شخصیت نگاری… غرض ہر موضوع پر بے تکان لکھتے تھے اور اہل علم و ادب سے داد و تحسین وصول کرتے تھے۔ اپنی زندگی کی آخری دہائی میں انہیں نعت کہنے کی توفیق ارزانی ہوئی اور عشق ِ رسولؐ کا زمزمہ اتنی شدت سے پھوٹا کہ اس پر بند باندھنا دشوار ہوگیا اور لالۂ صحرائی کے قلم سے ایک درجن سے زیادہ نعتیہ مجموعے منظر عام پر آگئے جو نعتیہ ادب میں ایک ریکارڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لالۂ صحرائی بے مثل نثر نگار اور نعت گو شاعر تو تھے ہی وہ غیر ملکی ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کا بھی شاندار ملکہ رکھتے تھے۔ ترجمہ نگاری کوئی آسان کام نہیں اس کے لیے اجنبی زبان کی نزاکتوں کو سمجھنا اور اسے اپنی زبان میں سمونا بڑی مہارت کا کام ہے۔ حیرت ہے کہ لالۂ صحرائی نے یہ کارنامہ اس وقت انجام دیا جب وہ ادبی دنیا میں معروف بھی نہیں تھے۔ 1943ء میں جب ان کی عمر صرف 23 سال تھی تو انہیں کلاسیکی انگریزی لٹریچر کو اردو میں منتقل کرنا کا شوق پیدا ہوا اور ان کی نظر ایک ممتاز جرمن ناول نگال ایرج مریہ ریمارک کے مشہور ناول کے انگریزی ترجمے پر پڑی جسے ایک انگریز مصنف و مترجم اے ڈبلیو وین (A.W.Wheen) نے All Quiet on the Western Front کے عنوان سے انگریزی کے قالب میں ڈھالا تھا۔ اس ناول کا تعلق پہلی عالمگیر جنگ کے واقعات سے تھا۔ لالۂ صحرائی کو یہ ناول اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اسے ’’خموش محاذ‘‘ کے عنوان سے اردو میں منتقل کرنے کی ٹھان لی۔ ترجمہ تو انہوں نے کرلیا لیکن اس کی اشاعت کی نوبت نہ آسکی اور مسودہ کہیں لالۂ صحرائی کے قلمی مسودات کے انبار میں گم ہوگیا۔
اب مترجم کے انتقال کے بعد ان کے لائق فرزند ڈاکٹر جاوید احمد صادق نے اپنے والد کے ادبی مسودوں کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا تو اس ترجمے کے مسودے پر بھی ان کی نظر پڑی مسودہ کچی پنسل سے تحریر کیا گیا تھا۔ مرورِ زمانہ سے اس کے الفاظ مدھم پڑ گئے تھے۔ چناں چہ ریسرچ اسکالر ڈاکٹر زاہرہ نثار نے مسودے کی ترتیب و تدوین پر خصوصی توجہ دی اور اسے قابل اشاعت بنایا۔ اور ڈاکٹر جاوید صادق نے اسے اشاعتی ادارے ’’دارالنوادر‘‘ اردو بازار لاہور کے زیر اہتمام 2023ء میں شائع کیا۔ گویا 80 سال بعد اس ترجمے کی اشاعت کی نوبت آئی۔ 80 یا 100 سال میں تو زبان کا لب و لہجہ بدل جاتا ہے اور لفظوں میں وہ تازگی نہیں رہتی جو تخلیقی عمل کے وقت ہوتی ہے لیکن لالۂ صحرائی کے قلم کا یہ کمال ہے کہ اس کے لکھے ہوئے لفظوں کی روشنائی ابھی تک مدھم نہیں ہوئی اور وہ 80 سال گزرنے کے باوجود جگمگا رہے ہیں اور قاری کو اپنی طرف متوجہ کررہے ہیں۔ ’’خموش محاذ‘‘ کا موضوع پہلی جنگ عظیم ہے جس نے اپنی وحشت اور سفاکی کے ذریعے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ زیر بحث ناول میں جنگ کے انسانی زندگی پر اثرات، جارحانہ قوم پرستی، جنگی خرافات، نفسیاتی عوارض اور سماج کو درپیش بہت مسائل تحریر میں آتے ہیں۔ ترجمہ نگار کا کمال یہ ہے کہ اس نے پہلے مصنف کے مزاج اور طرز تحریر کو سمجھنے کی کوشش کی ہے پھر اس کے مفہوم و معانی کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کی کامیاب سعی کی ہے۔
پال بامر مذکورہ ناول کا بنیادی کردار اور جنگ کے ہولناک مناظر کا راوی ہے۔ وہ اور اس کے دوست جرمن فوج کی طرف سے مغربی محاذ پر برسرپیکار ہیں اور دوران جنگ بار بار بھوک، بمباری، گولیوں کی بوچھاڑ اور قاتل گیس کا سامنا کرتے ہیں۔ اس معرکے میں احترام آدمیت کا سوال بار بار سامنے آتا ہے اور ناول کا بنیادی کردار پال بامر احترام آدمیت کا درس دیتا نظر آتا ہے۔ ایک جگہ پال خود کلامی کے انداز میں کہتا ہے۔
’’میں نوجوان ہوں اکیس سال میری عمر ہے لیکن میں نے ابھی تک سوائے موت، یاس اور ہول کے کچھ نہیں پایا۔ غم کے خوفناک اور عمیق کھڈے میرے سامنے پھیلے ہوئے ہیں میں ان پر سطحی اور ناتواں نگاہ ہی ڈال سکتا ہوں‘‘۔
ناول میں بے شمار جنگی مناظر اور ہولناک انفرادی واقعات ہیں جنہیں مترجم نے پوری حساسیت اور لفظوں کے محتاط چنائو کے ساتھ اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ مذکورہ ناول جنگ عظیم اوّل کے خاتمے کے چند سال بعد 1928ء میں شائع ہوا اور دنیا میں اتنا مقبول ہوا کہ متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا اور اسے لاکھوں قارئین نے پڑھا اور اپنی لائبریریوں کی زینت بنایا۔ اس ناول پر فلم بھی بنی جس نے متعدد اکیڈمی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ اردو میں یہ اعزاز لالۂ صحرائی کو حاصل ہوا کہ انہوں نے اس شاہکار کو اردو لٹریچر کا حصہ بنایا اور اب ہم 80 سال بعد اسے پڑھنے کا موقع حاصل کررہے ہیں۔ اب بھی پوری دنیا ایک عالمی جنگ کے خطرے سے دوچار ہے اور غزہ اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہے جو اسرائیل کی سفاکانہ جارحیت سے دوچار ہے اور دنیا نہایت خاموشی سے اس تباہی کو دیکھ رہی ہے، جنگ کا لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔