بابو آصف زرداری کا شکوہ

565

پاکستان بابوئوں کا ملک ہے، یقین نہ آئے تو کسی چھوٹے سے سرکاری دفتر کے بڑے سے کلرک کو دیکھ لیں یہ کلرک سائلین کے مسائل کے حل کا مکمل اختیار رکھتے ہیں، اور انہیں حل بھی نہیں کرتے، یہ کلرک سپروائزر، سپرنٹنڈنٹ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ڈائریکٹر سے ڈی جی تک پھر کلاس ون آفسر سے مختلف محکموں کے سیکرٹری تک کے عہدوں تک پہنچتے ہیں یہاں تک کہ صدر مملکت کے منصب تک پہنچتے ہیں، اس اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے بابو جناب آصف علی زرداری ہیں، اس سے قبل غلام اسحق خان، غلام محمد، اسکندر مرزا وغیرہ بھی بابوئے اعظم رہ چکے ہیں، اب موجودہ بابوئے اعظم آصف علی زرداری نے شکوہ کیا ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھے بابوئوں کی سوچ اور کم عقلی کی وجہ سے پاکستان غریب ہے، حالانکہ پاکستان کے نصیب میں نہیں لکھا تھا کہ یہ ملک غریب رہے، یقینا ملک کے سب سے بڑے منصب پر براجمان ہونے کے بعد انہوں نے پاکستان کے نصیب کا لکھا تو پڑھ لیا ہوگا، پاکستان میں دوسری مرتبہ صدر بننے والے وہ پہلے آدمی ہیں اور جب وہ پہلی مرتبہ صدر بنے تھے اسی وقت قوم کو پتا چل گیا تھا کہ اس کے نصیب میں کیا لکھا ہے، ویسے بھی ہم وہ قوم ہیں جو اپنے ہاتھوں تباہی کو دعوت دیتے ہیں اور اس کے آنے کے بعد اسے نصیب کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں، اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، صدر مملکت نے بابوئوں کی سوچ اور عقل کا شکوہ تو کیا ہے لیکن اس جانب اشارہ نہیں کیا ہے کہ ان بابوئوں کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ان کی سوچ میں کیا خرابی ہے۔ صدر صاحب نے یہ سب کچھ اپنے تجربات کی روشنی میں کہا ہے اور بھٹو صاحب کی برسی کے اجتماع میں کہا ہے، اس سے بھی ملک کے بابوئوں کی کہانی سامنے آتی ہے۔

ویسے یہ بابو بھی بڑی عجیب چیز ہوتے ہیں قانوناً کم اختیارات کے باوجود مکمل با اختیار ہوتے ہیں اور جب گرفت میں آئیں تو کہتے ہیں کہ میں تو بے اختیار تھا یہی معاملہ کلرک سے لے کرصدر مملکت تک سب کا ہے جنرل ضیا الحق، غلام اسحق خان اور فاروق لغاری کی جانب سے طاقت کے استعمال کے بعد سے تمام صدور بے اختیار صدر کے طور پر رہے لیکن آصف زرداری پہلے دور میں بھی پارٹی پر مکمل کنٹرول کی وجہ سے بااختیار تھے، ان کے شکوے سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ اسلام آباد کے کون سے بابوئوں کا ذکر کیا ہے، اگر انتظامی افسران کا ذکر ہے تو ا ن کا تقرر کون کرتا ہے، حکومت پی پی پی کی ہو تو اس کا وزیر اعظم صدر اور کابینہ بااختیار ہوتی ہے، یعنی ایسی سوچ والے بابوئوں کا تقرر۔ اعلیٰ سوچ والے سیاست دان ہی تو کرتے ہیں، پھر شکوہ کیسا؟ ایک عملی مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں جو لوگ حکمرانی کے منصب پر آتے اور سیاست دان کہلاتے ہیں وہ کتنے عقل مند ہوتے اور کیسی سوچ رکھتے، اپنی سوچ بھی رکھتے ہیں یا نہیں، فیصلے کس بابو کے کہنے پر کرتے ہیں اور ذمے داری خود لیتے ہیں، جہاں تک دستور پاکستان کا تعلق ہے تو وہ ہر ادارے اور اس کے بابوئوں کی ذمے داری اور اختیارات واضح کرتا ہے اور باوردی اور بے وردی ہر بابو اس آئین کا پابند ہے، جو پابندی نہیں کرتا وہ آئین سے تجاوز کرتا ہے، اور جو دوسرے کے اشارے پر غلط کام کرتا ہے وہ دوہری غلطی کرتا ہے۔ جہاں تک صدر مملکت کا تعلق ہے وہ اب دوسری مرتبہ منصب صدارت پر فائز ہوئے ہیں تو اب وہ دوسری مرتبہ صدر بننے والے پہلے آدمی ہونے کے ناتے بابوئوں کی کم عقلی اور سوچ کو ختم کرنے والے بھی پہلے آدمی بن جائیں۔