جیسے حاکم ویسی رعیت

515

ملک میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے جس کا جہاں دائو لگ رہا ہے وہ مال و متاع لوٹنے میں مصروف ہے۔ حکمران وقت سے لے کر حزب مخالف تک، اوپر سے لے کر نیچے تک، قیادت سے لے کر کارکنوں تک، مسلکی زعمائوں سے لے معتقدین تک، پیر سے لے کر مرید تک، حتیٰ کہ مدارس سے لے کر مساجد تک، ریاست سے لے کر سیاست تک، امت مسلمہ اُس فتنہ مال میں مبتلا ہوچکی ہے جیسے نبی محترم سیدنا محمدؐ اپنی امت کا فتنہ بتایا تھا۔ دولت کی پھسلن نے اچھے بھلوں اور پیٹ بھروں کے قدم اکھاڑ کر انہیں منہ کے بل گرادیا ہے، ایک بڑی سیاسی پارٹی کے آصف علی زرداری کے متعلق ایک صحافی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ترنگ میں آکر کہا کہ ہمیں مقررہ مدت تک حکومت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی تو ہم جتنی مدت ملے مال سمیٹ کر رخصت ہوں، یوں یہ ٹین پرسنٹ کہلائے تو دوسری بڑی پارٹی کے متعلق جس کے قائد محمد نواز شریف ہیں کہ والد میاں شریف کے یہ ریماکس بھی ہیں کہ میں نے نواز شریف کی سیاسی پر تین ارب خرچ کیے اور انہوں نے 9 ارب وصولی کی بات صحافی کو بتائی یعنی ’’تثلیث کا تجارتی فارمولا‘‘ جو عیسائیوں کا گمرہ کن عقیدہ و نظریہ بھی ہے کہ ایک کے تین۔ سو فرمانبردار فرزند نے ادوار حکومت میں خوب بڑھ کر نبھائی اور تو اور ایک مسلکی جماعت جو ماضی میں کانگریس کا لاحقہ رہی اس کے قائد مولانا فضل الرحمن نے بھی قائدانہ ہتھکنڈوں سے ڈھیروں مال ملکیت سمیٹی اور ایک اینکر نے ان کے کروفر کو دیکھ کر پوچھا کہ مولانا یہ کہاں سے آتا ہے تو جواب ملا، بس اللہ کی عنایت ہے پھر یوں ہی عمران خان جو حکومت میں لائے گئے تو وہ بھی لوٹ کی روایت سے دامن نہ بچا سکے اور یہ حکمرانوں کی چوکڑی ملک کی معیشت کو مکڑی کا جالا بنا گئی۔ مگر سب جانتے بوجھتے ان کو اقتدار کے لیے ناگزیر کیوں سمجھا گیا۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ یہ ہڈی توڑ کر کھاتے ہیں تا کہ حلق میں نہ پھنسے اور حصہ بقدرجثہ حقداروں کو پہنچانے میں ایمانداری سے دیانتداری سے کام لیتے ہیں۔ یوں یہ مقولہ بھی ان کے حوالے سے عام ہے کہ ہم کھاتے ہیں تو کھلاتے اور لگاتے بھی ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اس کی زندہ مثال ہے جس میں عورتوں کو ٹارگٹ کرکے ان کو حقدار قرار دے کر بھکاری ہی نہیں بلکہ گھر کا قوام بنا کر سیاست و حکومت کی پختہ کاری کا بندوبست پی پی پی نے کرکے دوسروں کو حواس باختہ کردیا۔

مملکت اور سرکار کے خرچ پر یہ جماعت ایسی ہے جیسی سندھ میں کہاوت ہے ’’مرغی کوری کی نام سید کا‘‘ اب معاشرہ کراہ رہا ہے۔ مہنگائی کے کوڑے کھا رہا ہے مگر وہ بھولے جارہا ہے کہ جو قرآن نے صاف بتادیا ہے کہ یہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہے اور اللہ بہت سارے قصوروں سے درگزر فرماتے ہیں۔ سو بات تو صاف ہے کہ لوگوں نے ووٹ کی پرچی سے ان کا انتخاب کیا تو مقتدروں نے بھی ان کو مطلب کا پایا اور اقتدار پر لا بٹھایا کہ یہ آزمودہ کار ہیں دیکھے بھالے ہیں، بہت ساروں کو قاتل قبول ہیں۔ عالم کفر بھی ناراض نہیں، مطلب برآوری والے اور مزاج شناس ہیں۔ یوں کمائی کی خاطر ہر چیز قابل فروخت ہوگئی اور صدا عام ہوگئی کہ کیا کیا خریدو گے، نوکری سے لے کر نوٹوں کی ٹوکری والی پوسٹ، بولی لگائو اور خوب کمائو، کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ ملازمت سرکار مال تجارت بنادی گئی، رشوت سکہ خریداری بنادی گئی اور یہ چین چلادی گئی کہ سب کڑیاں مل جل کر کام چلائیں مال پہچائیں اب رہا عوام پر رحم کا معاملہ مشکوٰۃ شریف میں روایت ہے کہ ابی نعیم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں سب بادشاہوں کا مالک اور بادشاہ ہوں اور سب بادشاہوں کے قلوب میرے ہاتھ میں ہیں جب میرے بندے میری اطاعت کرتے ہیں تو میں ان کے بادشاہوں اور حکام کے قلوب میں ان کی شفقت اور رحمت ڈال دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حکام کے دل ان پر سخت کردیتا ہوں وہ ان کو ہر طرح کا برا عذاب چکھاتے ہیں، اس لیے حکام اور امرا کو برا کہنے میں اپنے اوقات ضائع نہ کرو بلکہ میری طرف رجوع اور اپنے عمل کی اصلاح کی فکر میں لگ جائو تا کہ تمہارے سب کاموں کو درست کردوں۔ ابو دائود میں سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ جب اللہ پاک کسی امیر یا حاکم کا بھلا چاہتے ہیں تو اس کو اچھا وزیر اور اچھا نائب دے دیتے ہیں اگر امیر سے کچھ بھول ہوجائے تو وہ اس کو یاد دلادے۔ جب امیر اچھا کام کرے تو وہ اس کی مدد کرے اور جب حاکم و امیر کے لیے کوئی برائی مقدر ہوتی ہے تو بڑے آدمیوں کو اس کے وزرا اور ماتحت بنادیا جاتا ہے۔ (معارف قرآن 3)

بڑے بوڑھے کہتے ہیں جیسی روح ویسے فرشتے۔ اور مچھلی سر سے سڑتی ہے، امام ابن قبتیہؒ عیون الاخبار میں ایک واقعہ نقل فرماتے ہیں کہ جب قصریٰ کا ملک فتح ہوا تو وہاں سے خزانہ نکالنا شروع کیا گیا اس میں سے ایک تاج نکلا وہ تاج فوراً سیدنا عمر کو روانہ کردیا گیا تا کہ فتح کی نوید ہو وہ آدمی جب تاج لے کر امیر عمرؓ کے پاس حاضر ہوا تو آپ کے پاس چھڑی تھی آپ تاج کو چھڑی میں ڈال کر گھمانے لگے پھر فرمایا تاج لانے والا امین معلوم ہوتا ہے اس کا ایک ایک ہیرا بہت قیمتی ہے ایک ہیرا بھی نکال لیتا تو اس کے وارے نیارے ہوجاتے۔ کسی کو بھی معلوم بھی نہ ہوتا یہی خیال کیا جاتا کہ کہیں گر گیا ہوگا لانے والے امین کو قابل ستائش بنایا اس مجلس میں بیٹھا ایک آدمی بولا، امیر آپ تھوڑی سی بے ایمانی کرکے دیکھیے، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے، اس کا مطلب تھا امیر یہ آپ کی ایمانداری کا نتیجہ ہے آپ ایماندار ہیں تو آپ کی رعیت بھی ایماندار ہے۔ حاکم تھوڑی سی خرابی کرتا ہے تو رعیت خراب ہوجاتی ہے۔ بقول ضیا الحق کے اس ملک کا آوے کا آوا ہی خراب ہے۔ مگر ربّ فرماتے ہیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، ربّ ان ظالموں سے نمٹ لے گا یہ آئینہ حقیقت ہے ایسا ہی ہورہا ہے۔