پیپلز پارٹی کوئک مارچ

375

کراچی جو کبھی عروس البلاد کہلاتا تھا روشنیوں کا شہر تھا پھر نہ جانے اس شہر کو کسی کی نظر لگ گئی یا آسیب کے اثرات ہو گئے، اب یہی شہر البلاد الفقیر اور ڈاکوؤں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو شہر کے اس حال کو پہنچنے کے تانے بانے کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی سے ضرور ملتے ہیں، لیکن اس تذکرے کا کچھ حاصل نہیں جب مخصوص حلقہ بندیوں اور باقاعدہ اداروں کے تحت انجینئرنگ اور کھلم کھلا انتخابی دھاندلی کے ذریعے جعلی اور قبضہ مئیر اس شہر پر تھوپ دیا گیا۔ ان احکامات پر عمل کرنے والوں کی یہ سوچ ہی ختم کر دی جاتی ہے کہ جس حکم پر عمل کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے اس سے ادارے کو کتنی رسوائی ہاتھ آئے گی اور وہ خود اور کتنے رسوا ہوں گے۔

امن و امان کی صورتحال یہ ہے کہ شاید ہی کراچی کا کوئی ایسا باسی بچا ہو جو خود یا اس کا کوئی شناسا سرراہ لوٹنے والے بھیڑیوں سے بچا ہوا ہو۔ دن ہو یا رات ان ظالموں نے لوٹ مار قتل و غارت گری کر کے شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہر مرد و زن بینک جانے، مارکیٹ میں خریداری، اے ٹی ایم مشین سے نقد نکالنے، ائرپورٹ آنے جانے، تقریبات میں شرکت سے خائف ہے، غرض اور کیا کچھ بیان کیا جائے۔ شہریوں کی زندگی اجیرن ہے، مہنگائی کے بوجھ تلے عوام کے لیے جینا دوبھر اور ایک عذاب بنا ہوا ہے۔ یہ لٹیرے ظالم نہ موبائیل چھوڑتے ہیں اور نہ موٹر سائیکل۔ کوئی دن ایسا نہیں جو شہریوں کے جان و مال کے نقصان سے خالی گزرتا ہو۔

صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی حکمرانی کے 15 سال مکمل کرنے کے بعد اب اقتدار کے سولہویں سال میں داخل ہو گئی ہے، اس درمیان صوبے میں تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے متعین گورنر رہے اور ہیں۔ مرکز میں اپنے اپنے وقتوں میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، تحریک انصاف اور مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، جمعیت علما اسلام کے اتحاد پر مبنی حکومتیں بھی رہی ہیں۔ اس وقت کراچی میں گلی محلوں میں لوٹ مار سے بات آگے بڑھ کر مساجد میں لوٹ مار تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت سندھ اس تمام صورتحال میں اپنے دارالحکومت کے حوالے سے نہ صرف غیر سنجیدہ بلکہ بے نیازی اور لا تعلقی کا اظہار کر رہی ہے۔ حکومتی بے حسی کا اندازہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے بیانات سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ جب تک سندھ پولیس کو جدید اسلحہ نہیں ملے گا تب تک امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں ہوسکے گی۔ ایک دوسری خبر کے مطابق میڈیا سے گفتگو میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ میں نگران حکومت کے دور میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی، نگران حکومت نے سندھ کے ایس پی اور تھانیدار تبدیل کیے۔ حالیہ بیان میں وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے بھی کہا ہے کہ کراچی میں بدامنی سابقہ نگران حکومت کی لاپروائی سے ہوئی۔ سابق نگران وزیر داخلہ سندھ برگیڈئیر(ر) حارث نواز نے ان الزامات کی تردید کی ہے، اپنے ایک بیان میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اندرون سندھ ڈاکوؤں کو اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے، انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی بھرتیوں کا خمیازہ کراچی والوں کو ڈاکوؤں کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے، مقامی سردار ڈاکوؤں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔

ان سیاسی اور مغالطوں پر مبنی بیانات، الزامات، جوابی الزامات اور تردید سے ہٹ کر سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ اگر کراچی کے حالات دگرگوں ہیں تو کیا اندرون سندھ سب ٹھیک ہے؟ کیا اندرون سندھ امن و امان کی بگڑی صورت حال، غربت، جہالت ایسے ہی رہے گی اور ہاری کے نام سے مظلوم غریب طبقات نسل در نسل یوں ہی وڈیروں کے غلام رہیں گے؟۔ وڈیروں اور سیاستدان کی اولادیں تو یورپ اور دیگر ممالک میں تعلیم حاصل کرتی ہیں اور پھر آکر حکمرانی کے مزے لوٹتی ہیں، لیکن وہاں سے ان کی معاشرت کی وہ باتیں کہ جس کی وجہ سے آج ان اقوام کا دنیا میں نام ہے، وہ ترقی، وہ تعلیم، وہ آسان اور سہولت والی زندگی کے اطوار اپنانے اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے اپنے گاؤں دیہاتوں میں کوششیں کیوں نہیں کرتے؟، جبکہ حکومت کی صورت میں تمام وسائل بشمول داخلہ، تعلیم، بلدیات، تمام ہی وزارتوں سے یہ، ان کی پارٹی اور خاندان مستفید ہوتے ہیں۔

سندھ کے گاؤں دیہاتوں کی ابتر صورتحال اور شہروں کے کھنڈر بننے کی متعدد وجوہات میں ایک وجہ اگر دیکھا جائے تو نقل کے زور پر اور تعلیم کے نام پر بڑے پیمانے پر ڈگریوں کا اجرا اور ان کا حصول اس خانہ پری کے لیے ہے کہ جس کے تحت کاغذوں کا پیٹ بھرا جاتا ہے اور ان مناصب اور عہدوں کا حصول کیا جاتا ہے جو حکومتی اور انتظامی امور کو چلانے میں کلیدی کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ انتظامی اور دیگر ذمہ داریوں پر نااہل افراد کا سیاسی بنیادوں پر تقرر آخر کس طرح صوبہ اور ملک کے سب سے بڑے شہر کا نظم و نسق سنبھال اور چلا سکتا ہے؟۔ معاملہ کو سمجھنے کے لیے ایک چھوٹی سی مثال پولیس اور ٹریفک پولیس کی کارکردگی دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ شاہراہ پاکستان جو شہر کراچی کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑتی ہے اس کی کسی بھی مصروف مارکیٹ کے کسی چوراہے پر کھڑے ٹریفک پولیس کے اہل کاروں کو دیکھیں، سوائے رشوت لینے کے ان کی کوئی مصروفیت نہیں، سر عام رشوت لینا ان کا محبوب اور مرغوب مشغلہ ہے۔ اسی کے متوازی پولیس موبائیل کا ٹھیلے اور پتھارے والوں سے برسرعام رشوت لینا، کھانا پینا، پیٹ پوجا کرنا اور پیسے نہ دینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ مہینہ کا بندھا ہوا بھتا جو تھانے جاتا ہے وہ اس کے علاوہ ہے، یہ تو سڑک پر ڈیوٹی انجام دینے والوں کا حال ہے۔ اسی طرح سیاسی بنیادوں پر بھرتی اور نقل سے بی اے پاس بابوؤں کو چشم تصور میں دیکھیں جو کسٹم، انکم ٹیکس، سی پورٹ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور دیگر محکموں، سندھ سیکٹریٹ ہو یا کراچی کے اضلاع کے اسسٹنٹ کمشنروں کے دفاتر یا تھانوں میں براجمان ایس ایچ او کے دفاتر، دیکھ لیں کہ وہ کیا گل کھلا رہے ہیں، اکثریت اپنی تجوریاں بھرنے میں مشغول ہے۔ یہ سب کچھ اچھا نہیں ہے، کھلی دیدہ دلیری اور زیادتی نے شہریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے۔ آج ہماری عدلیہ، صحافی اور سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بارے میں جو فتویٰ جاری کر رہے ہیں آخر وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ پاکستان کا دولخت ہونا، ذوالفقار علی بھٹو کے انتخابی وعدے، روٹی کپڑا اور مکان کے جھانسے میں آئے ہوئے عوام کو پورے ملک، خاص کر سندھ میں جہالت، غربت، ظلم، اور پسماندگی کا تحفہ، پیپلز پارٹی کے اقتدار ہی کا نتیجہ ہے۔ اقتدار کے سولہویں سال میں اب صوبہ سندھ کو پیپلز پارٹی نے کہاں کھڑا کیا ہوا ہے؟، ایسا کیوں ہے کہ آج سندھ کے دارالحکومت کراچی کا ہر باسی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہے؟۔ پیپلز پارٹی نے اہل کراچی کو اب جہاں کھڑا کر دیا ہے تو وہ اور مزید کہاں لے کر جانا چاہ رہی ہے؟، اس کی ایک دھندلی سے تصویر تو ہمیں ان تصویروں میں نظر آ جاتی ہے جس میں بلاول بھٹو ایک مہنگے برانڈ کا جوتا پہنے ہوئے سندھ کے کسی گاؤں کے بچوں کے جھرمٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں جن میں سے اکثر بچوں کے پیروں میں نہ جوتا ہے اور نہ چپل۔

صوبہ سندھ اور اس کا دارالحکومت کراچی ’’تنہا ایک رات‘‘ میں اس بدترین صورتحال کو نہیں پہنچا ہے۔ اثر انداز قوتیں جب کسی بھی طرح جمہوری روایات کو کچلتے ہوئے ایک سے زائد پارٹنر سیاسی اور لسانی پارٹیوں کے ساتھ مل کر اس شہر کی قسمت سے کھیلنے لگ جائیں اور حقیقی عوامی نمائندوں کو دیوار سے لگا دیں تو انہیں نوشتہ دیوار بھی پڑھ لینا چاہیے کہ بس، بہت ہو گیا، ’’اِنَف اِز اِنَف‘‘۔ کیا پیپلز پارٹی 1977 کے الیکشن کا عوامی اور مقبول نعرہ بھول گئی- سات مارچ، دس مارچ، پیپلز پارٹی کوئک مارچ۔