اسرائیل، دہشت گردی اور امریکی تضاد

479

امریکا نے ایران کو دھمکی دی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس پر نئی پابندیاں لگائی جائیں گی۔ امریکی وزیر خزانہ جینیٹ یلین نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے اجلاس کے موقع پر بتایا کہ ان پابندیوں سے ایران کی تیل کی برآمدات کم ہوجائیں گی۔ امریکی پابندیوں کا مقصد یہ بتایا گیا کہ ایران کو دہشت گردوں کی مالی معاونت سے روکنا ہے۔ ایران اب بھی کچھ ممالک کو تیل برآمد کررہا ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی ممکنہ طور پر دہشت گردوں کی مالی معاونت میں استعمال ہوسکتی ہے۔ یہی نہیں امریکا، چین اور جی سیون کے تمام ممالک سے بھی بات کررہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ برآمدات کو روکیں۔ امریکی ایوان نے امریکی صدر کو ایران کے خلاف معاشی پابندیاں غیر معینہ عرصے تک جاری رکھنے کا اختیار دے دیا ہے۔ امریکا کی یہ ساری بے چینی ایران کے مبینہ اقدامات پر ہے جن کا الزام وہی لگاتا ہے۔ یعنی حزب اللہ کی مدد بھی اس میں سے ایک ہے اور ایران کے محدود حملوں کے فوراً بعد امریکا نے یہ دھمکی دی ہے۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن نے بظاہر تو یہی کہا تھا کہ امریکا ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں شریک نہیں ہوگا لیکن ایران پر امریکی خیالات کے مطابق دہشت گردوں کی معاونت کے الزام میں پابندیاں لگانے کی بات دراصل ایران کے خلاف جنگ ہی کا ایک حصہ ہے۔ اور جدید دور میں بارود سے زیادہ کارگر معاشی حملے ہوتے ہیں۔ اگر امریکا کے الزام کو درست بھی مان لیں تو اس کے عمل میں بہت بڑا تضاد ہے، اسرائیل کھلے عام فلسطین میں دہشت گردی کررہا ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ امریکا اس کو اسلحہ بھی دے رہا ہے اور تھپکی بھی۔ ایران پر جن دہشت گردوں کی معاونت کا الزام ہے ان تمام الزامات کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی وہ کسی طرح اسرائیلی بمباری کے ایک دن کے جانی نقصان سے بھی بہت کم ہوگا۔ لیکن ایران پر تو ممکنہ معاونت کا الزام ہے جبکہ امریکا اور جی سیون ممالک تو خود اسرائیل کی بھرپور معاونت کررہے ہیں جس کے حملوں سے اب تک تازہ جنگ میں چالیس ہزار سے زائد شہادتیں ہوچکی ہیں۔

بین الاقوامی سیاست میں امریکا کی پالیسیوں میں تضاد تو پہلے بھی نمایاں تھا لیکن اب تو امریکا ہر پہلو سے بے نقاب بلکہ عریاں ہوگیا ہے۔ پورا امریکا اپنی حکومت کی اس دوغلی پالیسی کی مذمت کررہا ہے اور امریکا سے مطالبہ کررہا ہے کہ ہمارے ٹیکسوں کی رقم سے اسرائیلی دہشت گردی کی معاونت نہ کرے۔ امریکی حکومت خود ایک ایسے ملک کی مالی اور ہتھیاروں سے معاونت کررہی ہے جس کی دہشت گردی ایک دنیا پر عیاں ہے اور اس کے خلاف جنگی جرائم کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے۔ امریکی تضاد یہیں تک موقوف نہیں ہے بلکہ اس نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ بھارت سے اپنے معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھوملر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کشیدگی میں کمی کریں اور مسائل کا حل مذاکرات سے نکالیں۔ اتفاقاً اسرائیل بھی فلسطینیوں کی زمین پر قابض ہے اور بھارت بھی کشمیریوں کی زمین اور پاکستانی علاقے کشمیر پر قابض ہے لیکن امریکا بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کا مشورہ دے رہا ہے جبکہ اسرائیل کو حماس سے مذاکرات کا مشورہ نہیں دیا جارہا۔ اور نہ ایران اور اسرائیل کو مذاکرات کا کوئی مشورہ دیا گیا ہے۔ یہ کھلا تضاد امریکیوں کو پوری دنیا میں رسوا کررہا ہے۔ اب تو امریکی عوام بھی اپنی حکومت کو پہچان گئے ہیں لیکن ان کا مسئلہ بھی وہی ہے جو پاکستانی عوام کا ہے کہ اگر وہ اپنی حکومت کو اٹھا کر پھینک بھی دیں تو ایک غیر سنجیدہ شخص پھر امریکی صدر بننے کو تیار بیٹھا ہے۔ یہاں پاکستانی عوام کو بھی اپنے حکمران چننے کے لیے ایسے ہی لوگوں میں سے انتخاب کرنا پڑتا ہے جن کے بارے میں بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک کی حکومت جاتی ہے اور دوسرے کی آتی ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ ؎

گائو آمد و خر رفتہر آنے والا جانے والے سے زیادہ غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ جو لوگ سارے معاملات کو کنٹرول کررہے ہیں ان کے پاس سارا مال ایسا ہی ہوتا ہے اب تو دنیا بھر کو جی سیون ممالک پر زور دینا چاہیے کہ اسرائیل کی کھلی دہشت گردی اور امریکا کی کھلی منافقت کی وجہ سے ان دونوں ممالک کا معاشی مقاطعہ کیا جائے ان پر معاشی پابندیاں لگائی جائیں، یہ معاشی حملہ جنگ ہے زیادہ کارگر ہوگا۔