کراچی میں گرما کی پہلی بارش ہوئی، ہلکی پھلکی بوندا باندی کے بعد بہت تیز تو نہیں ہاں تیز بارش ہوئی۔ وہ بھی چند گھنٹے لیکن بارش کا پانی اکثر مقامات پر کھڑا ہوا اب دو تین دن بعد پھر بارش کی خبر سنائی جارہی ہے اور بتایا جارہا ہے کہ بہت تیز بارش ہوگی۔ کراچی والے بارش سے خوش ہوتے ہیں لیکن ساتھ سہمے سہمے رہتے ہیں۔ کہ دو بوندوں کے ساتھ بجلی غائب اور سڑکوں پر دریا رواں ہوجاتے ہیں۔ پچھلے برسوں کی بارش کی یاد ڈرائونے خواب کی طرح ذہنوں میں موجود رہتی ہے۔ بہرحال بارش کا موسم سہانا لگتا ہے، کراچی والے خوش ہیں کہ گرمی کا موسم سہانے موسم میں بدل گیا۔ دھوپ کی کرنیں اپنی تمازت لپیٹ کر منہ چھپاتی رہیں، سیاہ بادلوں نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔
عید کی چھٹیوں کا آخری دن تھا۔ لہٰذا سب کے ملنے ملانے کے پروگرام جاری تھے۔ بارش نے سارے پروگراموں پر پانی پھیر دیا۔ لیکن لوگ خوش ہی تھے کہ چلو قریبی پارک کا رخ کیا جاسکتا ہے جانے والے بچوں کو لے کر پارک نکل گئے، جہاں بہار کے پھول کھلے تھے، چڑیاں اُڑتی پھر رہی تھیں، درختوں کی شاخیں کبھی ساکن ہوجاتیں اور کبھی ہوا سے رقص کرنے لگتیں۔ گلہریوں کے خاندان کے خاندان بچوں سمیت درختوں کے تنوں اور جڑوں میں بھاگتے پھر رہے تھے۔ کبھی گلہری ساکن کھڑی ہوتی تو اس کی پھولی ہوئی دم دیکھ کر مزا لیتے بچے کھلکھلا اُٹھتے اور گلہری بجلی کی تیزی سے درخت پر چڑھ جاتی۔ پارک کی پیدل پٹری پر چلنے والے لوگ کم تھے لیکن جھولوں پر بچوں کا رش تھا۔ بارش کے ساتھ ہی کراچی کے لوگ باہر نکلنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں لیکن ڈاکوئوں کے راج کے باعث خوفزدہ بھی رہتے ہیں اب کریں تو کیا کریں ڈاکو نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات اور نہ ہی بازار نہ مسجد۔ وہ تو دن دہاڑے ڈھابوں پر بیٹھے لوگوں کی جیبیں خالی کرالیتے ہیں۔ اکثر جگہ سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہوتے ہیں ڈاکوئوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر واضح نظر آتی ہیں لیکن ان کی دیدہ دلیری جاری ہے۔ جو پکڑے جاتے ہیں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ بیرون شہر کے ہیں، جے ڈی سی کی دعوتوں سے مستفید ہوتے ہیں اور مال بناتے رہتے ہیں۔ پیارا شہر کراچی ڈاکوئوں اور لٹیروں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ خوبصورت سمندر کی لہریں لوگوں کو بلاتی ہیں عید کے دن اور سہانا موسم لوگ دور دور سے یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ پھر یہ کراچی کے لوگوں کے لیے ایک سستی تفریح ہے لیکن ڈاکوئوں نے یہاں بھی اپنا کام جاری رکھا ہے۔ پچھلے دنوں سی ویو پر ایک نوبیہاتے نوجوان کو ڈکیتی میں مزاحمت پر بیوی کے سامنے گولی مار کر قتل کردیا اور فرار ہوگئے۔ سندھ کے آئی جی کا کہنا ہے کہ کراچی میں پولیس اسٹریٹ کرائم روکنے کے لیے کام کررہی ہے۔ لیکن اس کے لیے سوسائٹی کو بھی پولیس کی مدد کرنا ہوگی۔ سوسائٹی کے لوگ کس طرح پولیس کی مدد کریں اس کی وضاحت نہیں کی۔ ایک لحاظ سے اس کا مطلب عدالت میں گواہی دینے کا تھا۔ کیونکہ اُن کا کہنا تھا کہ موثر گواہی نہ ہونے کے باعث ملزمان ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور بار بار جرم کرتے ہیں اور بار بار پکڑے بھی جاتے ہیں لیکن سزا نہیں ملتی اور چھوٹ جاتے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ تھانے اور عدالتوں کے چکر ان کی جیب سے پیسہ نکلوانے کا ذریعہ ہے پھر دھمکیاں الگ ملتی ہیں۔
سندھ کے وزیر داخلہ تو کراچی میں ہونے والے جرائم پر ہی یقین نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ جبکہ ان ہی کے آئی جی سندھ بتاتے ہیں کہ تین ماہ کے دوران 68 ڈاکو مارے گئے اور چار سو ڈاکو زخمی حالت میں گرفتار ہوئے۔ دوسرے جرائم میں گرفتار ملزمان کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ دوسری طرف اب تک ان 3 ماہ کے دواران 59 شہری ڈاکوئوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ ان میں رمضان اور عید کے دن بھی ڈاکوئوں نے شہریوں کو قتل کیا اب اگر آئی جی شہریوں سے مدد مانگ رہے ہیں تو انہیں ان کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دینی ہوگی۔ کچے کے ڈاکوئوں کو اسمگلر اسلحہ فراہم کرتے ہیں، آئی جی کو یہ وضاحت کرنی چاہیے تھی کہ کراچی کے عوام اپنی حفاظت اور پولیس کی مدد کے لیے اسلحہ کچے کے ڈاکوئوں سے خریدیں یا پکے کے… یا اسمگلرز سے رجوع کریں؟۔