اسرائیل پر ایرانی حملے سے متعلق پہلی بات تو یہ یقین کر لیجیے کہ اس کی وجہ غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کارنج، تشویش اور افسوس یامسجد اقصیٰ کی حرمت کی پا مالی نہیں بلکہ یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر کیا گیا اسرائیل کا فضائی حملہ تھا جس میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب (آئی جی آر سی) کے ایک سینئر کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ وہ ایران کی جانب سے لبنان کے شیعہ گروہ حزب اللہ کو مسلح کرنے والے آپریشن میں ایک اہم کردار کے حامل تھے۔ ایران کا حملہ قومیت اور وطنیت کے جذبات کی عملی شکل ہے۔ اسرائیل کے لیے پیغام کہ وہ غزہ، فلسطین، الاقصیٰ اور دیگر علاقوں کے مسلمانوں کا جو قتل عام کررہا ہے اس کا دورانیہ، نوعیت اور حجم خواہ کچھ بھی ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن اگر اس نے ایران کی سرزمین اور اس کی تنصیبات پر حملہ کیا تو پھر جواب دیا جائے گا۔ قومیت اور وطنیت کے تصور پر اس تیقن سے عمل پیرا ہونے کے معاملے میں ایران تنہا نہیں ہے تمام مسلم ممالک کا یہی حال ہے، اسلام جن کے لیے بے دلی سے تسلیم کردہ ثانوی اور غیر اہم مسئلہ ہے جو ان کے منصوبوں میں کہیں بھی ٹھیک طرح سے فٹ نہیں بیٹھتا جب کہ وطنیت اور قومیت پہلا جذبہ ہے۔ تازہ خدائوں میں سب سے بڑا۔
ایران کے اسرائیل پر حملے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایران اور ترکی چونکہ شاید ہی کبھی کسی کے زیر قبضہ رہے ہوں اس لیے اپنی آزادی اور دفاع کے معاملے میں وہاں کے لوگ حددرجہ حساس واقع ہوئے ہیں۔ ایران میں کسی کی بھی حکومت ہو اس کے لیے عوام پر یہ ثابت کرنا لازم ہوتا ہے کہ وہ ملک وقوم کی سالمیت کے بارے میں کسی قسم کی غفلت اور تساہل کا شکار نہیں ہے اور ملک کے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ انقلاب کے بعد اسرائیل کی مخالفت ہر ایرانی حکومت کے بیانیے کا ایک بڑا اور اہم حصہ رہا ہے جس کا وہ ملکی اور عالمی سطح پر مسلسل اظہار کرتی رہتی ہیں۔ ایران اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کا اعلان کرتا رہتا ہے کہ وہ اسرائیل کا خاتمہ چاہتا ہے۔ ملک کے رہبر ِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل کو اس سے قبل ’’کینسر کی رسولی‘‘ سے تشبیہ دی تھی جس کا ’’بلاشبہ خاتمہ بھی کیا جائے گا اور یہ تباہ بھی ہو گا‘‘۔ اسرائیل کا بھی ماننا ہے کہ ایران اس کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔ جیسا کہ ایران کے بیانیے سے عیاں ہے۔ اس لیے ایرانی حکومت کے لیے کسی بھی طور ممکن نہیں تھا کہ وہ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کو نظر انداز کرسکے یا اس کے جواب میں کوتاہی کا ثبوت دے جب کہ دمشق یا کسی بھی مقام پر کسی بھی ملک کا قونصل خانہ دراصل اسی کی سرزمین ہی باور کیا جاتا ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایران نے اسرائیل کی جانب 300 سے زیادہ ڈرونز اور میزائل فائر کیے۔ ایران سے اسرائیل کا سب سے کم فاصلہ ایک ہزار کلو میٹر ہے اور یہ براستہ عراق شام اور اردن ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں سے دو میزائل اسرائیل کی سمت داغے۔ ایران نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو تقریباً دو ہفتوں کی مہلت دی کہ وہ حملے سے بچائو کے لیے بندوبست کرلیں۔ اس مدت میں امریکا نے اپنے طیاروں، جنگی جہازوں اور بحری بیڑے کوخطے میں منتقل کردیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ خطے میں نامعلوم ٹھکانوں سے کارروائی کرتے ہوئے امریکی افواج نے اردن کی سرحد کے قریب جنوبی شام میں متعدد ایرانی ڈرونز کو مار گرایا۔ برطانیہ بھی ایرانی حملے سے اسرائیل کی حفاظت کے لیے اپنے جنگی جہاز خطے میں منتقل کرچکا تھا۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سنک نے تصدیق کی ہے کہ برطانیہ کے آر اے ایف ٹائیفون جیٹ طیاروں نے بھی متعدد ایرانی ڈرونز کو مار گرایا ہے۔ فرانس نے فضائی حدود میں گشت کرنے میں مدد کی لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس نے کسی ڈرون یا میزائل کو مار گرایا یا نہیں۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ خود اسرائیل کے جنگی طیارے اور آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کے استقبال کے لیے پہلے سے متحرک تھے۔ حملے کے نتیجے میں اسرائیل کے صحرائے نیگیو میں نیو ٹیم ائر فورس بیس کو معمولی نقصان پہنچا اتنا معمولی کہ وہ حملے کے بعد بھی کام کرتا رہا اور ایک دس سالہ بچی زخمی ہوئی اور بس۔
پا کستان ترکی اور دیگر ممالک کی طرح ایران بھی خطے میں امریکی ایجنٹ کاکردار ادا کررہا ہے۔ عراق پر امریکی قبضے کے قیام اور مضبوطی میں ایران نے بڑی ہنر مندی سے امریکا کا ساتھ دیا۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت کے استحکام کے لیے اگر چھے لاکھ افراد ہلاک کیے گئے تو ان میں سے چارلاکھ افراد کی ذمے داری ایران پر عائد ہوتی ہے۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد پاکستان کے بعد یہ ایران تھا جو سب سے زیادہ القاعدہ کے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کررہا تھا۔ خطے کے اسٹرٹیجک معاملات میں ایران امریکا کے ساتھ چلتا ہے جس کی وجہ سے امریکا ایران کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ محدود پیمانے پر اپنے بھرم کا شو برقرار رکھے۔ بظاہر امریکا اور ایران ایک دوسرے کے دشمن نظر آتے ہیں لیکن انٹر نیشنل آڈر کی برقراری کے معاملے میں ایران اور امریکا یکجا اور دوست ہیں۔
امریکا کو پہلے سے مطلع کرکے اسرائیل پر ایران نے جس طرز کا حملہ کیا ہے یہ امریکا اور ایران کے ایسے ہی تعلقات کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے۔ ایرانی وزیرخارجہ کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکا کو اسرائیل پر حملے کے بارے میں پہلے ہی مطلع کرچکے تھے کہ وہ ایک نان ایسکیلیٹری کنٹرولڈ اٹیک کریں گے۔ یہ ایک محدود پیمانے کا حملہ ہوگاکیونکہ ہم جنگ نہیں چا ہتے۔ یہی وجہ ہے کہ حملہ کے ساتھ ہی ایران کی طرف سے اعلان کردیا گیا کہ ہم نے بدلہ لے لیا۔ معاملہ ختم۔ ایران نے اسرائیل پر ایک ایسا حملہ کیا جس کے دفاع کا اسرائیل کو پورا وقت دیا گیا اور اتحادیوں کو اسرائیل کا ساتھ دینے کا۔ ایران کی حکومت نے یہ حملہ اپنی عزت کی بحالی اور اپنے عوام پر یہ ثابت کرنے کے لیے کیا ہے کہ ایران سب سے بڑا اینٹی اسرائیل ہے۔
ایران اپنے آپ کو امریکا کے مخالف رخ پر رکھ کرامت مسلمہ کے رہبر کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس طرح کے بے ضرر حملوں سے امریکا اور اسرائیل سے محاذ آرا ہوکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ ایران ہے جو امریکا اور اسلام دشمن قوتوں کے مقابل کھڑا ہے جب کہ دور تک کوئی دوسرا اسلامی ملک اس معاملے میں ایران کی مثل نہیں ہے۔
فلسطینیوں کو ایران کے اسرائیل پر حملے سے کوئی فائدہ پہنچا اور نہ نقصان کیوں کہ ان کی جنگ کے مقاصد کچھ اور ہیں جب کہ ایران کے حملے کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ اہل فلسطین بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی آزادی اور اللہ کی رضا کے لیے جہاد کررہے ہیں۔ ایران کا حملہ قومی عصبیت کے اظہار اور اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے تھا یا دنیا بھر کے ان خوش فہم مسلمانوں میں وہ وقتی اور مصنوعی ابال پیدا کرنے کے لیے جس کا اظہار سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی دنیا میں ابتدائی گھنٹوں میں دیکھا گیا کہ اسرائیل نیست ونابود ہوگیا اور ایران امت مسلمہ کے ہیرو کے طور پر دنیا پر چھا گیا۔