کراچی گزشتہ کئی ماہ سے مکمل طور پر ڈاکوئوں کے نرغے میں ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سندھ حکومت نے کراچی کے عوام کو مسلح ڈاکوئوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ شہر میں قانون اور حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ مسلح افراد آزادانہ طور پر پورے شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں اور یہ ظالم درندے معمولی مزاحمت پر شہریوں کو گولی مار کر ان کی جان بھی لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں 18افراد ان ظالموں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ گزشتہ تین ماہ میں 55افراد ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل کردیے گئے اور چھے ہزار افراد سے موبائل فون چھین لیے گئے۔ جبکہ 442 گاڑیاں اور 12 ہزار موٹر سائیکل چوری یا چھینی گئیں۔ کراچی کا ہر تیسرا شہری رہزنوں کا شکار ہے اور وہ شہر میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز سے تنگ آچکا ہے اور مزاحمت کر رہا ہے جس کے نتیجے میں اکثر قیمتی جانوں کا نقصان ہورہا ہے۔ صوبے سندھ میں امن و امان و حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ڈاکو آپے سے باہر ہوتے جا رہے ہیں اور اب تو یہ صورتحال ہوگئی ہے کہ مسجد کے اندر نمازی، امام مسجد اور موذن کو بھی اسلحہ کے زور پر لوٹا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں تحریک پاکستان کے رہنما کیف بنارسی کے پوتے اور معروف ادبی شخصیت اختر سروش کے صاحبزادے 38سالہ سید علی رہبر کو ملینیم راشد منہاس روڈ پر ڈاکوئوں نے مزاحمت پر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ تحریک پاکستان کے رہنما جو کہ ہمارے محسن ہیں ان کی اولادوں کے ساتھ یہ سلوک ظلم کی انتہا ہے۔ افسوس کی بات یہ کہ تحریک پاکستان کے رہنما کے پوتے کے قتل پر نہ ہی گورنر سندھ تعزیت کے لیے پہنچے اور نہ ہی وزیراعلیٰ سندھ۔ ادبی شخصیت اخترسروش کی بڑھاپے میں کمر ٹوٹ گئی ہے لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کے بڑھتے ہوئے واقعات کی بڑی وجہ اس شہر میں مقامی پولیس کا نہ ہونا ہے۔ جرائم جن کو روکنا ہے ان کا تعلق اس شہر سے ہی نہ ہو اور وہ صرف نوٹ بنانے، اپنا بینک بیلنس اور جائدادیں بنانے میں مگن ہیں۔ دنیا بھر میں لوکل پولیسنگ ہوتی
ہے۔ کراچی میں بھی جرائم کو روکنے کے لیے لوکل پولیسنگ کی اشد ضرورت ہے اور اس پر سختی کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔ پاکستان کے دیگر شہروں لاہور، پشاور، کوئٹہ، لاڑکانہ میں جب وہاں کے مقامی افراد کو محکمہ پولیس میں بھرتی ہوسکتے ہیں تو کراچی کے شہریوں کے حق پر کیوں ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ کراچی میں تعینات تمام ہی ایس ایچ اوزغیرمقامی ہیں جنہیں علاقے کے ڈائنامکس کا علم نہیں ہے۔ پاکستان کا معاشی حب اب تک سیف سٹی پروجیکٹ سے محروم ہے جس کی وجہ سے چوروں ڈاکوئوں کو شہر میں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ کراچی پولیس چیف سینئر ڈی آئی جی عمران یعقوب منہاس نے کراچی میں بڑھتی ہوئی وارداتوں کو معمول کا حصہ قرار دیا ہے انہوں نے کہا کہ ہرسال رمضان المبارک میں کرائم بڑھتے ہیں۔ دنیا میں بڑے بڑے شہروں میں ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتیں معمول کا حصہ ہوتی ہیں۔ کراچی پولیس کی جدید حکمت عملی کے نتیجے میں شہر میں ڈکیتی ورہزنی کی وارداتوں میں واضح طور پر کمی آجائے گی اور عید کے بعد اس کے نتائج سامنے آئیں گے۔ کراچی پولیس کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے اور لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کے لیے نئی حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ نے بھی خصوصی ہدایت دی ہیں۔
سندھ میں قیام امن کے لیے 60ارب 34کروڑ روپے سالانہ بجٹ میں مختص کرنے کے باوجود کراچی سمیت پورے سندھ کے عوام امن کو ترس رہے ہیں۔ کراچی میں پکے کے ڈاکو اور اندرون سندھ جیکب آباد، کشمور، شکار پور، دادو میں کچے کے ڈاکو سرگرم ہیں اور انہوں عوام کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس تو انتہائی جدید اسلحہ اور بکتر بند گاڑیاں تک موجود ہیں اور انہیں سیاسی قوتوں کی مکمل پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ کچے کے ڈاکو تو پوری پوری بسیں اور مال بردار ٹرک اور ٹرالروں کے ڈرائیوروں کو اغواء کر کے لاکھوں روپے تاوان وصول کرتے ہیں۔ سندھ حکو مت ان کے آگے بے بس لاچار ہے اور ملٹری آپریشن ہی کے ذریعے ان ڈاکوئوں کا مکمل خاتمہ ہوسکتا ہے۔
کراچی اور حیدرآباد میں گزشتہ 30برسوں سے رینجرز موجود ہے لیکن ان کی موجودگی کے باوجود اسٹریٹ کرائمز میں مستقل اضافہ ہورہا ہے اور اسٹریٹ کرائمز کا جن کسی کے قابو میں نہیں آرہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں عوام مسلسل ڈاکوئوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا صنعتی، تجارتی، معاشی حب اور اقتصادی شہ رگ میں روز بروز بڑھتی ہوئی بدامنی اور پولیس کی جانب سے جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی نے سنگین صورتحال اختیار کرلی ہے۔ ان وارداتوں کے دوران قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ جنوری 2024 میں اسٹریٹ کرائمز کی 7ہزار 806 وارداتیں رپورٹ ہوئی تھیں۔ فروری میں 7ہزار 297، مارچ میں 5ہزار 197 وارداتیں رپورٹ کی گئیں۔ کراچی میں جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی اصل وجہ محکمہ پولیس میں سیاسی بھرتیاں ہیں اور کراچی کے شہریوں کو جان بوجھ کر محکمہ پولیس میں بھرتی نہیں کیا جاتا اور اب ایک بار پھر گیارہ ہزار سے زائد نئی بھرتیاں کیے جانے کی اطلاعات آرہی ہیں۔ اس سے قبل محکمہ ٹریفک میں چالیس ہزار اہلکاروں کی بھرتیاں کی گئی جو کہ سب کی سب غیرمقامی افراد پر مشتمل ہے، جنہوں نے کراچی کے شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا اپنا معمول بنایا ہوا ہے اور پورے شہر میں یہ اہلکار ٹولیوں کی شکل میں بس اسٹاپوں پر موجود ہوتے ہیں اور ہزاروں روپے چالان کے نام پر شہریوں سے وصول کیے جاتے ہیں لیکن کوئی چالان یا رسید بھی نہیں دی جاتی ہے جس کی وجہ سے شہر میں نفرت اور لسانی سیاست کو تقویت پہنچ رہی ہے۔ کراچی پولیس میں نئی ہونے والی بھرتیوں میں بھی اس دفعہ بھی سیاسی عمل دخل کیا گیا اور شفاف طریقے سے میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں نہ کی گئی اور سیاسی طور پر اہلکاروں کو بھرتی کیا گیا تو اس کے اور زیادہ خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جائیں اور محکمہ پولیس میں شامل کالی بھیڑوں کو ادارے سے نکال باہر کیا جائے اور شہر میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے۔
ادھر جماعت اسلامی نے بھی کراچی میں روز بروز بڑھتے ہوئے جرائم، لوٹ مار اور اسٹریٹ کرائمز کی واردتوں کے دوران ڈاکوئوں کے ہاتھوں بے گناہ اور مظلوم شہریوں کی ہلاکتوںکے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری منعم ظفر نے کہا کہ سندھ حکومت نے عوام کو ڈاکوئوں اور قاتلوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے اور شہر میں کسی کی بھی جان ومال محفوظ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے عوام کے ساتھ مزید ظلم برداشت نہیں کرے گی اور پوری قوت کے ساتھ احتجاج کیا جائے گا اس سلسلے میں وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے احتجاجی دھرنے کا پروگرام بھی مرتب کیا جارہا ہے۔