ایک روز مرزا غالب کے شاگرد میر مہدی مجروح ان کے گھر آئے تو دیکھا کہ مرزا غالب پلنگ پر پڑے درد سے کراہ رہے ہیں۔ مجروح ان کے پیر دابنے لگے، مرزا صاحب نے کہا ’’بھئی تو سید زادہ ہے، مجھے کیوں گناہ گار کرتا ہے کہ میرے پیر دباتا ہے۔ میر مہدی مجروح نہ مانے اور کہا کہ آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیر دابنے کی اُجرت دیجیے گا۔ مرزا نے کہا ہاں اس میں مضائقہ نہیں مجروح پیر داب چکے تو از راہ مزاح مرزا سے اُجرت مانگی کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ مرزا خود ادھار پر گزارہ کر رہے ہیں، مرزا نے جواب میں کہا کہ بھیا کیسی اُجرت؟ تم نے میرے پاؤں دابے، ہم نے تمہارے پیسے دابے، حساب برابر۔
کچھ مدت پہلے امریکا نے پاکستان کو اس کے حصے کے دس ایف سولہ طیارے دیے۔ امریکا نے پاکستان سے ان طیاروں کے تقریباً 80 ارب روپے بھی وصول کیے جو امریکا کو کولیشن سپورٹ فنڈ میں پاکستان کو ادا کرنے تھے جو ایک مدت سے روکے ہوئے تھے امریکا کا رویہ پاکستان کے ساتھ ایسا ہی تھا جیسا کہ مرزا غالب کا میر مہدی مجروح کے ساتھ یا ہندوستان کا پاکستان کے ساتھ۔ پنجاب کے غریب عوام سے وہاں کے جاگیرداروں کے سلوک صرف پنجاب تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ ذہنیت پورے پاکستان میں اپنا تسلط قائم کر چکی ہے، یہ مائنڈ سیٹ پورے ملک میں ہر شعبہ زندگی میں جڑیں پکڑ چکا ہے، زندگی کے ہر شعبہ میں اس کی کارگزاریاں واضح انداز میں دکھائی دے رہی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان روز بروز کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے، ابتدائی طور پر یہ جابرانہ انداز فکر تھا، کلچر میں نظر آیا، ساتھ ساتھ پٹواری نظام میں بھی یہ انداز نفوذ کر گیا۔ کیونکہ پٹواری نظام براہ راست جاگیرداری نظام کا حصہ تھا۔
یہ جاگیردار ابتدائی طور پر انگریزوں نے اپنی کمپنی کی حکومت کو مستحکم بنانے کے لیے 1857ء کے بعد سامنے لائے، انگریز نے 1857ء کی جنگ آزادی میں اپنے وفاداروں کو مراعات کے طور پر جاگیریں عطا کر دیں، یہ وفادار‘ یوں تو پورے ہندوستان میں موجود تھے جو نوابین اور مہاراجاؤں کی شکل میں تھے اور پاکستان کے علاقوں میں۔ جاگیرداروں، وڈیروں یا سرداروں کی صورت میں تھے تقسیم ہند کے بعد پورے ہندوستان میں ان نوابین اور مہارا جاؤں کی جاگیروں کو حکومت نے اپنے اختیار میں لیکر ان کی قوت کو توڑ دیا مگر پاکستان کے قیام کے بعد یہ جاگیردار وڈیرے اور سردار روز بروز طاقتور ہوتے چلے گئے، شروع میں انہوں نے اپنے آپ کو دیہات تک محدود رکھا جو کہ پاکستان کا تقریباً 80 فی صد حصہ تھا، انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں متوازی حکومت قائم کی ہوئی تھی۔ جس میں وہ اپنی مرضی کے مطابق نظم و نسق چلاتے، فیصلے کرتے، ان فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے اپنی نجی جیلیں قائم کی ہوئی تھیں، ان جیلوں میں ان کے ہاری، کسان، جاگیردار کی مرضی کے مطابق رکھے جاتے، ان پر ملکی قوانین کی پہنچ بند تھی ملکی قوانین صرف شہروں تک محدود تھے، جب ملک میں اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا تو ایک نیا طبقہ ظہور میں آیا، یہ طبقہ تھا نوکر شاہی جس کو سول سرونٹ کہا جاتا تھا، ان جاگیرداروں نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ ادارے اور ان سے وابستہ افراد طاقتور ہوتے جارہے ہیں تو انہوں نے ان اداروں میں اپنا اثر نفوذ بڑھانا شروع کر دیا اس طرح اپنے کسی بھائی بند کو یا اولاد کو ان اداروں میں پہنچانا شروع کر دیا، یوں یہ ذہنیت نوکر شاہی میں بھی پروان چڑھنا شروع ہوگئی، جب ملک پر فوجی حکومت قائم ہوئی تو ان کا ساتھ نوکر شاہی نے بڑے زور و شور سے دیا اس طرح یہ اثرات فوجی حکمرانوں تک پھیل گئے، ایوب خان کا گورنر ملک امیر محمد خان اس کی ایک واضح علامت تھا۔
یہ جاگیردارانہ انداز فکر نوکر شاہی سے ہوتا ہوا ان اداروں میں آنا شروع ہوا، یوں آہستہ آہستہ حکمرانوں تک چلا گیا جو بعد میں یحییٰ خان کی صورت ملک پر مسلط ہوا جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان ملک سے علٰیحدگی کا موجب بنا۔ اس ہی ذہنیت کا مظاہرہ ہوا جب مشرقی پاکستان میں ٹکا خان نے کہا کہ مجھے انسان نہیں زمین چاہیے۔ اس طرح مشرقی پاکستان بے پناہ خونریزی کے باعث ہندوستان کی مداخلت کی وجہ سے پاکستان سے الگ ہو گیا اس کے پیچھے و ہی جاگیر دارانہ ذہنیت بھی تھی جس کا خمیازہ پاکستان کے عوام نے بھگتا۔ پھر یہ ذہنیت جنرل ضیاء الحق کی صورت سامنے آئی جس نے بظاہر پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی، موجودہ پاکستان آج جس حال میں ہے وہ صرف اور صرف اس ذہنیت کی وجہ سے ہے۔
آج دنیا میں پاکستان کو کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، آج پاکستان کے ساتھ دنیا کا رویہ بھی وہی ہے جو امریکا کا پاکستان کے ساتھ ہے۔ یا غالب کا مجروح کے ساتھ، جاگیردارانہ ذہنیت کا پاکستان کے عوام کے ساتھ، یہ جاگیردارانہ ذہنیت ایسی ہی ہے جیسے ہندوستان کے برہمن سماج کی نچلی ذات کے ساتھ یا مسلمانوں کے ساتھ یا یہودی کا باقی دنیا کے ساتھ۔ یہ ایک حقیقت ہے امریکا میں جس قسم کا نظام ہے اس میں یہ نظام امریکا کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ وہاں تمام ادارے آپس میں مربوط ہو کر ایک ایسی پالیسی بناتے ہیں جس پر تمام تھنک ٹینک متفق ہوتے ہیں۔ ان پالیسیوں پر تمام اداروں سمیت وہاں کے عوام بھی ایک یک جان ہو کر عمل پیرا ہوتے ہیں اس طرح امریکا میں جو بھی پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں ان پالیسیوں سے امریکا کو ہمیشہ فوائد ہی حاصل ہوئے ہیں۔ اس ہی طرح ہندوستان میں تمام ادارے باہمی تعاون سے ہندوستان کی پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں جس کا مقصد ہندوستان کو مضبوط اور طاقتور ملک بنانا ہوتا ہے نہ کہ کسی ایک ادارے کو، اس کی وجہ سے ان پالیسیوں کی درست سمت کی بناء پر ہندوستان کامیابیاں حاصل کرتا ہے مگر پاکستان کے اداروں کا رویہ جاگیردارانہ ذہنیت کے مطابق ہوتا ہے جس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کہا ہوا آخری حکم ہوتا ہے اس کے آگے کسی چڑیا کو پر مارنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اگر کسی نے ان پالیسیوں سے انحراف کرنے کی کوشش کی تو اس کو بزور طاقت دبا کر اس کا منہ بند کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں ترتیب دی جانے والی اپنی جاگیردارانہ ذہنیت کی بھینٹ چڑھ کر پاکستان کے لیے دوسرے تمام اداروں کے لیے بے حد نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں اس کا سراسر نقصان پاکستان کو ہوتا ہے اس دیرینہ مرض کا علاج ہی یہ ہے کہ دوسروں کے حقوق کو دابنے کا سلسلہ ختم کر کے اس جاگیردارانہ ذہنیت کا خاتمہ کیا جائے، جس نے پاکستان کے قیام اب نقصان ہی نقصان پہنچایا۔ اس طریقے کو ختم کیا جائے جو امریکا نے دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ روا رکھا ہے یا ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ اپنے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ یا مرزا غالب کا میر مہدی مجروح کے ساتھ روا رکھا ہے۔