اسرائیل پر ایرانی حملے عرب ماہرین اور عالمی تجزیہ نگاروں کی نظر میں

457

مقبوضہ بیت المقدس: صہیونی ریاست اسرائیل پر ایران کی جانب سے کیے گئے تازہ حملوں کو مشرق وسطیٰ پر نظر رکھنے والے ماہرین اور عالمی تجزیہ نگار مختلف طرح سے دیکھ رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں دمشق میں ایرانی تنصیبات پر صہیونی فوج کے حملوں کے جواب میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر 300 سے زیادہ ڈرون اور بیلسٹک میزائل فائر کیے گئے، جس پر ایک جانب تو اسرائیلی قیادت کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے ہیں جب کہ دوسری جانب امریکا بھی اسرائیل کی مسلسل دہشت گردی کے تناظر میں اپنے سیاسی مفاد اور عالمی ساکھ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسرائیل کی ماضی کی طرح کھل کر حمایت کرنے سے قاصر ہے۔

اسرائیل پر حملوں کے بعد عالمی سطح پر نئی بحث چھڑ چکی ہے جس میں خطے کی صورت حال کا مطالعہ کرنے والے ماہرین اور عالمی حالات پر تبصرہ کرنے والے تجزیہ کار اپنی اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی الفاظ کی نئی جنگ جاری ہے۔ کوئی ایران کو ہیرو قرار دے رہا ہے تو کوئی اسے صہیونی ریاست کے لیے فائدہ مند کہہ رہا ہے۔

تجزیہ نگاروں کے ایک حلقے کا کہنا ہے کہ ایرانی حملوں سے فلسطینی کاز کو نقصان پہنچا ہے تو ایک حلقہ رائے رکھتا ہے کہ ایران کی بہادری کو دیکھتے ہوئے دیگر اسلامی ممالک کو بھی کھل کرسامنے آنا چاہیے۔ اسی طرح اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں ایرانی حملوں کو اسرائیل کے لیے سودمند قرار دیا جا رہا ہے۔

اسرائیل فلسطین تنازع اور اس پر عالمی ردعمل کا جائزہ لینے والے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کا حملہ اور اس میں داغے گئے ڈرون اور میزائل صہیونی ریاست تک پہنچنے سے قبل ہی مار گرایا جانا پہلے سے طے تھا، جس کا مقصد امریکا کوسیاسی فائدہ پہنچانا تھا۔ اسی طرح ماہرین کا ایک طبقہ رائے رکھتا ہے کہ ایران کی جانب سے نسبتاً کم نقصان کرنے والے ہتھیاروں کے استعمال سے اپنا دفاع کرنے کے لیے اسرائیل، امریکا یا اردن کو جس ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا پڑا ہے، وہ ایرانی وسائل کے مقابلے کہیں زیادہ مہنگی اور طاقت ور تھی، جسے دراصل اسرائیلی نقصان سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔

اسرائیلی میڈیا میں صہیونی ریاست کے حامی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایرانی حملوں کا بروقت جواب نہ دے کر اسرائیل نے جس طرح تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اس سے اسرائیل کو بین الاقوامی حمایت ملے گی جب کہ ایران کو ایک جارح ریاست کے طور پر دیکھا جائے گا۔

اسرائیلی تجزیہ کار نے کہا کہ ایران کےحملے کے نتیجے میں دنیا کی توجہ غزہ سے ہٹ کر ایک نئے تنازع پر مرکوز ہو گئی ہے، جس کا فائدہ بہرحال اسرائیل ہی کو ملے گا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق میزائل ایکسپرٹ سید محمد علی نے اپنے تجزیے میں کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایران جان بوجھ کر کم تکنیکی صلاحیت والے ڈرون یا میزائل داغے، یعنی ایرانی ڈرون 20 ہزار ڈالر کا ہو مگر اس کے خلاف اسرائیل 5 سے 10 ملین ڈالر کے میزائل مار رہا ہو اور اگر یہ جنگ لمبی چلتی ہے اور ایران کم تکنیکی صلاحیت والے 1000 سستے ڈرون مار رہا ہے جن کی کل قیمت ایک ایف 16 کے برابر بھی نہیں مگر اس کے جواب میں وہ اسرائیل کے بہت جدید اور مہنگے ایرو 1، 2، 3 ضائع کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ایران نے اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کو بہت بڑا نقصان پہنچا دیا ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ایران کی طرف سے داغے گئے میزائلوں اور ڈرونز کی بڑی اکثریت کو اسرائیل کی حدود میں پہنچنے سے قبل ہی ایرو ایریئل نامی فضائی دفاعی نظام اور خطے میں موجود اتحادیوں کی مدد سے ناکام بنا دیا ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے سے ماضی میں وابستہ رہنے والے پاکستانی صحافی نے اپنی رائے میں کہا کہ میرا خیال ہے کہ ایران کا مقصد اسرائیل کو جانی و مالی نقصان پہنچانا نہیں، صرف یہ بتانا تھا کہ ایرانی ہتھیار اسرائیلی حدود میں پہنچ سکتے ہیں۔

اسرائیل پر ایرانی حملوں کےمقاصد یا اس میں صہیونی ریاست کے نقصان کا تخمینہ ایک جانب، تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی علاقوں خصوصاً غزہ پر جاری اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجے میں بڑھنے والے عالمی دباؤ اور مختلف ممالک کی جانب سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے اشاروں سے پتا چلتا ہے کہ کئی ماہ سے اسرائیلی بم باری اور طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود پرعزم فلسطینی مجاہدین اور ان کی حمایت بہت جلد اسرائیل اور اس پشت پناہوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی۔