گزشتہ ماہ مارچ میں سیکورٹی چیک پوسٹ پر حملے میں شہید لیفٹیننٹ کرنل کے جنازے کو کاندھا دیتے ہوئے جنرل عاصم منیر اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کا فوٹو شاٹ کیا کسی غمزدہ خاندان سے گھر کا سہارا اور لخت جگر واپس دلا سکتا ہے؟۔ افواج پاکستان اتنے نامساعد حالات میں غیروں کے ساتھ اپنوں کے نشتر کا شکار ہیں، انہوں نے اس شہید سپوت کی تربیت میں جو صلاحیتیں صرف کی تھیں ان کا کوئی نعم البدل ملے گا؟ یہ تو مثال ہے صرف ایک شہید کی اس کے علاوہ جو جوانِ رعنا کیپٹن جس نے زندگی کی کتنی تھوڑی سی بہاریں دیکھی تھیں، ابھی تو اس نے اپنے مستقبل کے خواب اپنی پلکوں پر سجائے بھی نہیں تھے۔ اس غمزدہ خاندان کی داد رسی کرنے تعزیت یا شہادت کی مبارکباد کہنے کی ہمت کون کہاں سے لایا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ فوجی جوان ان کو جہاں بھی بھیجا جاتا ہے وہاں وہ ہنستے کھیلتے ماحول کو چھوڑ کر ایسے مقام کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں جہاں سے انہیں خود بھی دوبارہ اپنی واپسی کا یقین نہیں ہوتا، وہ تو اپنے وطن کا مان ہوا کرتے ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی میں طنز کے تیر برسا کر ہم سوگوار خاندانوں کے زخموں کو کرید کر مزید گہرا تو کر سکتے ہیں لیکن مسئلہ کا حل نہیں پاسکتے۔ اسٹیبلشمنٹ کے سنگ چلتے ہوئے سیاستدان اداروں کی بیساکھیوں کے سہارے اقتدار کی مسند تک پہنچتے ہیں اور جب یہ بیساکھیاں بوجہ ان سے چھین لی جاتی ہیں تو ان کا غم و غصہ مناصب سے ہوتا ہوا پورے ادارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
کراچی میں کسی ماں کا لعل دیکھیں تو روزانہ کی بنیاد پر یہاں راہ چلتے شہریوں کو بالکل اسی طرح لوٹا جا رہا ہے جیسے بقرعید میں آپ کسی جانوروں کے ریوڑ میں داخل ہو جائیں جو شہر کے کسی مصروف چوراہے یا سڑک کے کنارے بقرعید سے تھوڑا پہلے قائم کر دیا جاتا ہے جس طرح آپ جانور خرید کر لے جا رہے ہوتے ہیں تو آس پاس کے دیگر خریدار یا اسی چوک یا راستے پر گزرنے والے مسافر بلا کسی تاثر کے صرف گزرتے رہتے ہیں صرف ان کے لاشعور میں ایک چیز ہے کہ کہیں ان جانوروں میں سے کوئی بھڑکتے ہوئے انہیں نقصان نہ پہنچادے۔ یہ ڈاکو چند ہزار کے موبائل کو چھینتے ہوئے قطعی طور سے اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ مزاحمت کے نتیجے میں وہ اس جوان رعنا یا کنبے کے سربراہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے پیاروں سے جدا کر رہے ہیں۔ اخباری اطلاعات سے ہٹ کر روزانہ کی بنیاد پر ویڈیو وائرل ہوتی رہتی ہیں کہ کس ڈھٹائی کے ساتھ یہ ڈاکو شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کیے ہوئے ہیں، اکثر لوگوں نے مہنگے موبائل تو اپنے ساتھ رکھنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے کی بانسری۔ جو اپنے پیاروں سے جدا ہوئے ہیں ان میں سے کتنے ایسے تھے جو مستقبل کے خواب اپنی پلکوں پر سجائے ہوئے تھے، اپنی شادی کے ارمان سجائے ہوئے جہان فانی سے گزار دیے گئے، اس ظلم اور درندگی کا کیا مداوا ہوسکتاہے؟، ان خاندانوں کی دادرسی کون کر سکے گا؟۔
سیاسی صورتحال دیکھیں تو الیکشن 2018 سے 2024 کے درمیان ہمارا بقیہ اور اس کے بعد ہمارا بچا کھچا قومی اتحاد نہ صرف پارہ پارہ ہوا بلکہ ذمہ دار ادارے، سیاسی جماعتیں اور گروہ باقاعدہ آمنے سامنے نظر آئے۔ سوشل میڈیا کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ سیاسی ورکرز اپنی اپنی پارٹیوں اور قیادت کے اشارے پر ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ذہنی طور سے تیار ہیں۔ ٹیلی وژن اینکرز کی اکثریت جس انداز میں اس ملکی افسردہ اور سنگین سیاسی صورتحال پر ہنستے اور مسکراتے ہوئے مخالف سیاستدانوں کو آمنے سامنے بٹھا کر بات کر رہی ہوتی ہے ایسا لگتا ہے کہ پروگرام کم، ریٹنگ اور تفریح زیادہ ہو رہی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کا مصمم ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ عدلیہ سے آنے والے فیصلوں کے حوالے سے عوام بھی اس بات سے آگاہ ہو گئے ہیں کہ پاکستان میں قانون چند کتابوں میں بند ہے اور ہر کتاب ایک مخصوص چابی سے کھلتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی جس طرح لڑ رہے ہیں اور کھیل رہے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ کسی دور رس منصوبہ کا حصہ ہے، بظاہر جمہوریت لیکن حقیقتاً کچھ اور۔
سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کو ’’اسپیس‘‘ نہ دینے اور غضبناک رویے اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ جس طرح مختلف جانور اور پرندے لڑائی کے لیے ہی تربیت یافتہ ہوتے ہیں، ان کی تربیت ایسی ہوتی ہے کہ ان کا کام صرف اپنے مخالف سے لڑنا ہے، لڑتے لڑتے وہ اپنی جان کی بازی تو لگا سکتے ہیں لیکن پیچھے ہٹنا ان کی سرشت میں شامل نہیں تاآنکہ ان کے مالکان بزور قوت ان کو علٰیحدہ نہ کر دیں۔ یہ صورتحال بہت خطرناک ہے کہ جو محب وطن سیاسی عنصر اس تمام صورتحال میں دلگیر بھی ہے اور افہام و تفہیم سے مسائل حل کرانے کے لیے ماضی میں ان کی کوششوں کا ایک ریکارڈ ہے انہیں بھی بالکل بے وزن کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ وہ بھی بد دل ہو جائیں اور حالات کو ہر طرح سے بگاڑا جائے اور پھر خود ہی کچھ عرصے کے لیے انہیں معمول پر آنے دیا جائے اور ملک کو اسی دھینگا مشتی میں رکھ کر خدانخواستہ کہیں ملک کے دفاع اور نظریات پر کوئی کاری وار کر دیا جائے۔ یہ مشق ہم سینیٹ اور قومی اسمبلی میں قادیانیوں اور جنس کی تبدیلی کے قانون کے حوالے سے دیکھ چکے ہیں۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی میں کتنے ارکان تیاری کرکے آتے ہیں؟ قانون سازی انگریزی زبان میں ہونے کی وجہ سے اکثریت کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ ایسی اسمبلی میں بھلا کیسے ان باریکیوں پر نظر رکھی جائے گی اور کون رکھے گا نظر، وہاں تو آپس کی دھینگا مشتی ہی سے کسی کو فرصت نہیں۔ وہاں نہ اب سراج الحق ہیں اور نہ مشتاق خان اور نہ عبد الاکبر چترالی جو اکیلے ہی اپنی سی کاوشوں سے اب تک قانونی باریکیوں میں چھپے الفاظ سے ملک کے قومی مفاد اور نظریاتی اساس کی کئی مواقع پر نہ صرف نشاندہی بلکہ کامیابی سے دفع بھی کر چکے ہیں۔ صورتحال بہت زیادہ متنبہ کر دینے والی ہے۔ اسمبلیوں میں جو نمائندے پہنچے ہیں ان کی اکثریت لالچی، خدا بے خوف، ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے بلکہ سطحی اور یک زاویہ سوچ کی حامل ہے۔
پاکستان ان حالات میں کب تک اپنی بقا کی جنگ میں مصروف رہے گا، کیا سیاسی جماعتیں اور ملکی سلامتی کے ادارے اس طرح ایک دوسرے کے مد مقابل رہیں گے، کیا شہری اسی طرح عدم تحفظ کا شکار رہیں گے؟ اگر ایسی صورتحال رہی تو پھر پاکستان کس طرح ترقی کی سیڑھی پر قدم رکھ سکے گا؟ کس طرح عوام کے مسائل حل ہوں گے؟ کس طرح ابتر اور خوفناک معاشی صورتحال سے نکلا جا سکے گا؟ یہ سب مل کر مزید انتشار یا خدانخواستہ کسی ابتر صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ مختلف سیاسی لیڈر مختلف پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ عمران خان کو چھے ماہ میں حکومت جاتی ہوئی نظر آرہی ہے تو کچھ سیاستدان اسے کھنچ تان کر دو سال کی رعایت دے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا غیظ و غضب ان کے رویے اور لہجے سے قہر نمایاں ہے کہ وہ اپنی بدترین مخالف پی ٹی آئی کو بھی نرم گوشہ دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اگر واقعتا ایسی صورتحال ہے جیسے کہ آثار ہیں تو صورتحال سے نکلنے کا حل کیا ہے؟، صورتحال سے نکلنے کے لیے سب سے بہتر تو یہی کہ جس کا جو کام ہے وہ اپنا محاذ سنبھالے، اسٹیبلشمنٹ کو جلد یا بدیر آخر کار اس محاذ آرائی سے باہر آنا ہی پڑے گا، اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو ’’لوٹوں‘‘ سے پاک کرنے اور ’’لوٹی‘‘ ہوئی ملکی دولت ملکی خزانے میں واپس لانے کے لیے موثر قانون سازی کرنی پڑے گی، کچھ سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ مسئلہ کا حل تمام مْتَحارب جماعتوں کو اور اداروں کو ساتھ بیٹھ کر ہی نکالنا ہوگا۔ جب تک سیاسی قوتیں متحد نہیں ہوں، اسٹیبلشمنٹ کے قدموں میں بیٹھنے والے اور ان کی انگلی پکڑ کر چلنے والے سیاستدانوں کا احتساب نہ کیا جائے، اداروں کو کبھی بھی ان کی آئینی اور قانونی حدود کا پابند نہیں رکھا جاسکے گا۔