بھارت کا مستقبل امریکا کی نظر میں

561

بھارت میں امریکی سفیر ایرک گریسٹی نے سونی پت میں یونیورسٹی کے طلبہ سے ایک اہم خطاب کیا ہے۔ ’’اس صدی کے سب سے زیادہ نتیجہ خیز تعلقات، ہند امریکا مفاہمت‘‘ کے عنوان سے منعقدہ اس سیمینار میں امریکی سفیر بھارت پر پوری طرح جان چھڑکتے نظر آئے۔ وہ ماضی میں بھارت میں اپنا کردار ادا کر چکے ہیں اور ان دنوں کو اپنے سنہری دن سمجھتے ہیں۔ امریکی سفیر نے دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ مستقبل کو دیکھنا چاہتے ہیں، اگر آپ مستقبل پر کام کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ مستقبل کو محسوس کرنا چاہتے ہیں تو بھارت آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ امریکا کے تعلقات دنیا کی تشکیل کے لیے سب سے نتیجہ خیز ہیں اور دونوں کے درمیان بہترین شراکت داری کی وقوع پزیری ابھی باقی ہے۔ اس سے کچھ ہی دن قبل امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اعلان کیا تھا کہ ٹیکنالوجی میں تعاون کے ساتھ ہندوستان اور امریکا کے درمیان شراکت داری ایک نئی بلندی پر پہنچ گئی ہے۔ امریکی سفیر کا اعلان اپنے اندر بھارت امریکا تعلقات کی گہرائی اور معنویت ہی کو نہیں بلکہ بھارت کے مستقبل کے نقشے کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے۔ یہ بیان بتارہا ہے کہ امریکا نے مستقبل کے بھارت کے لیے کون سا نقشہ اور کون سا بلند مقام سوچ رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر امریکا نے بھارت کو خطے کی ایک بالادست بلکہ کرہ ارض کی ایک مضبوط طاقت بنانے کا تہیہ کیا ہے تو اس نے اس راہ کی رکاٹوں کو دور کرنا بھی اپنا درد سر سمجھ رکھا ہوگا۔ ان رکاوٹوں کو دھونس دھمکی تھپکی سمیت ہر طریقے سے دور کرنا امریکا کا مقصد ہوگا۔
امریکا اور بھارت کے مقاصد بہم گندھ کر رہ گئے ہیں اور دونوں کے درمیان من وتو کی تمیز اسی وقت ختم ہو گئی تھی جب نائن الیون کے بعد امریکا نے اسرائیل کے بعد بھارت کو دنیا میں اپنا دوسرا شراکت دار بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد ہی دونوں کے ہیرو اور ولن ایک ہو کر رہ گئے تھے۔ دونوں کے مقاصد اور اہداف ایک ہونے کا مطلب یہ تھا کہ دونوں کے دشمن بھی ایک ہو گئے تھے۔ ایک دوسرے کے اسٹرٹیجک پارٹنر بنتے ہی دونوں نے سیاسی اور دفاعی تعاون کی راہ پر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔ اس کے باوجود امریکی سفیر اگر یہ کہتے ہیں کہ امریکا اور بھارت کے درمیان بہترین شراکت داری کے دن ابھی باقی ہیں تو دونوں کے تعلق کی نوعیت کو سمجھنا مشکل نہیں۔ یوں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ امریکا بتدریج بھارت کو خطے اور دنیا کی ایک بڑی سیاسی طاقت ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب بنانا چاہتا ہے۔ امریکی دانشور نے اپنے مشہور زمانہ نظریے تہذیبوں کا تصادم میں مستقبل کی جس تہذیب کو اپنے خطرہ قرار دیا تھا وہ چین کی کنفیوشس تہذیب تھی۔ وہ ملکوں کا نام لے کر بھی اس تصور کو آگے بڑھا سکتے تھے مگر انہوں نے ملکوں کی بات کرنے کے بجائے اسلامی تہذیب اور کنفیوشس تہذیب کی اصطلاحات استعمال کیں۔ ان دونوں تہذیبوں کے مقابلے کے لیے کسی ملک کو نہیں بلکہ ایک تہذیب کو تیار کیا جانا مقصود ہے اور وہ ہندو تہذیب ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف بھارت مغرب میں پسندیدہ اور کھلی ثقافت اور تجارت کا حامل ملک بن کر سامنے آرہا ہے اور امریکی سفیر دنیا بھر کو صلائے عام دے رہیں کہ اگر دنیا کا مستقبل دیکھنا ہے تو بھارت آکر دیکھو تو دوسری طرف نریندر مودی کی حکومت کی سرپرستی میں ایک سخت گیر ہندونظریات کی بالادستی پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا جارہا ہے جس میں صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ مغرب کے ہم مذہب عیسائیوں کے لیے بھی کوئی عزت کا مقام نہیں بلکہ دونوں سے اظہار رائے اور سیاسی حالات پر اثر انداز ہونے کا قریب قریب چھین ہی لیا گیا ہے۔ ایک طرف بھارت کا جدیدیت کی طرف سفر جاری ہے اور دوسری طرف اندرونی طور پر بھارت کے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کی اس انداز سے تشکیل نو ہو رہی ہے کہ وہ ایک ہندو راشٹریہ کا روپ دھار لے۔
ایران کی مذہبیت سے امریکا ہمیشہ خفا رہا۔ طالبان کی مذہبی سخت گیری انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ پاکستان بس آئین میں درج چند اسلامی شقوں اور کچھ اصطلاحات اور کمزور اور مبہم قوانین کی حد تک اسلامی ریاست ہے تو امریکا کا بس نہیں چلتا وہ اس آئین کو کراچی کے سمندر میں بہادے۔ اس کے برعکس بھارت امریکا کی سرپرستی اور تعاون میں ہندو راشٹریہ بننے کے مراحل ہنسی خوشی طے کررہا ہے تو اندازہ ہوجانا چاہیے کہ بھارت کو بطور ملک نہیں بطور تہذیب اُبھارا جانا مقصود ہے۔ جب کوئی تہذیب اس مصنوعی انداز سے غلبے کی راہیں تلاش کرے یا اسے عالمی چھتر چھائے میں مسلط کیا جائے تو اس سے حادثات جنم لیتے ہیں۔ انہی رویوں سے شہ پاکر بھارت میں مسجدوں اور درگاہوں کی بنیادوں سے ہندو تہذیب کی علامتیں اور آثار تلاش کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ یہی نہیں بھارت کے اس ہندو تہذیبی اُبھار کو راہ دینے کے لیے عرب دنیا کو زمین پر لٹا دیا گیا ہے۔ متحدہ عرب امارت میں مندروں کی تعمیر اور مشترکات کی دریافت حقیقت میں ہندو تہذیب کو راہ دینے کی کوشش ہے۔ پاکستان کی اپنی کوئی علاقائی تہذیب نہیں یہ عرب تہذیب کا پرتو ہے اس کے ہیروز زبان ثقافت تمدن سب عرب میں جنم لینے والی اسلامی تہذیب کو عکس ہے۔ جب عالم عرب ہندو تہذیب کی بالادستی کو ایک حقیقت جان کر قبول کرلے گا تو پاکستان کے لیے اپنے سیاسی اختلافات کی بنیاد پر اس راہ میں مزاحم کی گنجائش نہیں رہے گی۔
المیہ یہ کہ بھارت میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی سونی پت میں بیٹھ کر بھارت کو مستقبل کے امکانات اور مواقع کی جنت بنا کر پیش کر رہے ہیں مگر پاکستان میں امریکا کے سفیر ڈونلڈ بلوم پاکستان کے ساتھ باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت بہترین تعلقات قائم ہونے کے باوجود پاکستانیوں کو اپنے مستقبل کی اس سے کم تر خوبصورت تصویر نہیں دکھا رہے۔ ان کے پاس پاک امریکا تعلق اور تعاون کے حوالے سے بنانے اور دکھانے کو جو تصویر ہے اس میں قرضوں کی ادائیگی، چھوٹے موٹے منصوبوں میں مالی مدد اور تکینکی تعاون یا دہشت گردی کے منترے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ تعاون کی اس بلندی کے باوجود وہ کبھی یہ نہیں کہتے کہ پاکستان ایک مثالی ملک بنے گا۔ ایک خطے میں واقع دو ملکوں کے اندر یہ دومختلف انداز اس بات کا پتا دے رہے ہیں کہ دونوں کے لیے الگ الگ کردار متعین ہیں۔ اگر ایک ملک کو ایک بالادست تہذیب کے طور پر اُبھارنا مقصود ہے تو اس کے پہلو میں کسی دوسرے ملک کو اس حد تک اُبھارا نہیں جا سکتا کہ وہ اس منصوبے کو خراب کرنے کی پوزیشن میں آئے۔ جلیل عالی کی زبان میں یہ معما یوں حل ہوتا ہے
اپنے دیے کو چاند بنانے کے واسطے
بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا ہمیں