محمود شام ایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ مورخہ 7 اپریل اخبار جنگ میں ’’جماعت اسلامی بھی اکیسویں صدی میں داخل‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں انہوں نے ابتدا ایک سوالیہ جملہ سے کی ہے کہ ’’52 سالہ حافظ نعیم الرحمن باقاعدہ انتخابی عمل سے 82 سالہ جماعت اسلامی کے امیر ہو گئے۔ کیا جماعت اور پاکستان میں کسی تبدیلی کا امکان ہے‘‘۔ انہوں نے جماعت اسلامی میں باقاعدہ انتخابات کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ ’’دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح یہ انتخابات دکھاوے کے نہیں ہوتے‘‘۔ حافظ نعیم کے امیر منتخب ہونے کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ ’’جماعت اسلامی جیسی رجعت پسند، روایت پرست اور مذہبی جماعت نے بھی زمانے کے تقاضوں کا ادراک کیا ہے‘‘۔ اپنے کالم میں انہوں نے جماعت اسلامی کے 1970 سے اب تک کے انتخابات میں پاکستان میں حکمرانی کا مینڈیٹ نہ ملنے اور اسے عوام میں مقبول نہ ہونے کے اسباب سوالات کی صورت میں اٹھائے ہیں جن میں انتخابی نظام، سرمایہ داری جاگیر داری کے علاوہ ’’دیگر نکات‘‘ جن میں جماعت اسلامی کی ماضی کی پالیسیاں، قیام پاکستان کی مخالفت کا الزام، جنرل ضیا کی حمایت، کمیونزم کی بیغ کنی میں امریکا کا ساتھ، افغان پالیسی، اسلامی جمعیت طلبہ و طالبات کی سخت روی، شامل ہیں۔ کالم کا اختتام ان الفاظ سے کیا ’’یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اب تک جماعت کی شہرت حکومت گرانا رہی ہے۔ اب لوگوں کو یقین دلائیں کہ وہ حکومت بنانا بھی چاہتی ہے۔ حکومت کے ذریعے ہی انسانیت کی خدمت اسی طرح کرتی رہے گی۔ جیسے اب الخدمت کے ذریعے کرتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن میں یہ امکان موجود ہے کہ وہ لوگوں کو قائل کرلیں گے کہ مسئلے کا حل صرف ترازو۔
محمود شام نے جماعت اسلامی کو حکمرانی کا مینڈیٹ نہ ملنے کا سبب دیگر عوامل کے ساتھ جن ’’دیگر نکات‘‘ کی نشاندہی کی ہے وہ کچھ تو گمراہ کن پروپیگنڈا اور کہیں خاص طرز فکر ہے جو اب ڈھونڈنے سے مشکل ہی سے ملتی ہے، یہ فکر اپنے سیاسی وزن کے حوالے سے جماعت اسلامی کے لیے کسی رکاوٹ کا باعث نہ ماضی میں تھی اور نہ اب ہے۔ کالم میں بیسویں صدی کے بیان کردہ ’’دیگر نکات‘‘ سیاسی طور سے اکیسویں صدی کے انتخابات میں ’’ڈاینیمک چینجز‘‘ کی وجہ سے اثر انداز نہیں، اس لیے جماعت کو مینڈیٹ نہ ملنے کی وجوہات کو دیگر پیراؤں میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔
محمود شام نے جماعت اسلامی پر رجعت پسندی کی متروک بھپتی کَسی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب تک کمیونزم، سوشلزم اور روس کی شکست و ریخت اور پسپائی نہیں بھولے ہیں اور ذہنی طور سے بیسویں صدی کی ساتویں اور آٹھویں دھائی سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں، وہ زمینی حقائق تو دیکھیں، ان سے ادب سے عرض ہے کہ جماعت اسلامی اسلام کے جس نظریہ کی حامل ہے وہ ہر دور میں ترقی پسند، اسلامی روایات اور دینی ا قدار کا حامل رہا ہے، محمود شام اگر جماعت اسلامی کے وژن، اس کی دعوت، اس کے انتخابی منشور اور اس کی معاشی اور زرعی پالیسی اور اس کے قائم تحقیقاتی و دیگر ادارے، پبلی کیشنز، اس کی علمی اور قلمی کاوشوں کا جائزہ لیں تو اس لحاظ سے جماعت اسلامی رجعت پسند نہیں بلکہ وہ ایک ترقی پسند جدیدیت کی حامل دینی جماعت کے طور سے انہیں اظہر من الشمس نظر آئے گی۔
محمود شام نے جماعت اسلامی کے حوالے سے 1970 کے انتخابات سے اپنی بات شروع کی ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو جماعت اسلامی کا سفر تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع تھا جب قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش پر مولانا مودودی نے تقاریر اور مباحثہ کا سلسلہ ریڈیو پاکستان لاہور سے شروع کیا تھا۔ کل پانچ تقاریر 6 جنوری 1948 تا 16 مارچ 1948 کی گئیں، جو اسلام کا اخلاقی نظام، اسلام کا سیاسی نظام، اسلام کا معاشرتی نظام، اسلام کا اقتصادی نظام، اسلام کا روحانی نظام، کے عنوانات پر محیط تھیں۔ 18 مئی 1948 کو ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک مباحثہ ’’پاکستان کو مذہبی ریاست ہونا چاہیے‘‘ کے عنوان کے تحت جو جناب وجیہ الدین اور مولانا مودودی کے مابین تھا نشر کیا گیا۔ یہ نشریاتی تقاریر اب کتابی شکل میں دستیاب ہیں۔
محمود شام کے مرتب نکات میں ’’جماعت اسلامی قیام پاکستان کی مخالف‘‘، یہ ایک رٹا رٹایا متروک ڈائیلاگ، گھسا پٹا الزام اور حقیقت کے بر خلاف بات ہے، اگر ایسا ہی تھا تو قائد اعظم کیوں مولانا مودودی کو ان تقاریر کے لیے مدعو کرتے؟ اس سوال کا جواب ہمیشہ کی طرح اس سوال کا شوشا چھوڑنے والوں پر آج بھی قرض ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت 11 ستمبر 1948 سے پہلے تقاریر کا یہ سلسلہ جاری رہا لیکن اس سفر میں اس وقت رکاوٹ شروع ہوئی جب قائد اعظم کے انتقال کے اگلے ہی ماہ 4 اکتوبر 1948 میں جہاد کشمیر کے بارے میں جھوٹا الزام لگا کر لیکن دراصل اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبہ پر 20 ماہ کے لیے پابند سلاسل کر دیا گیا اور پھر مولانا مودودی کا اسیری اور سیاست کا سفر مظالم کی انتہا تک پہنچا جب ایک فوجی عدالت نے ’’قادیانی مسئلہ‘‘ نامی کتاب لکھنے کے جرم میں مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنائی اور مولانا مودودی قرآن مجید لے کر پھانسی گھر روانہ ہوگئے۔
جماعت اسلامی اعلائے کلمۃُ اللہ کے لیے قائم ایک ایسی جماعت ہے جو علمی بنیادوں پر قائم کی گئی، یہ نہ دیو بندی ہے نہ بریلوی اور نہ کسی اور مسلک کی پیروکار یا نمائندہ، اس کے عقائد کی بنیاد اور اساسی نقطہ توحید اور رسالت کے حوالے سے وہی ہے جس کی قرآن مجید میں جا بجا دعوت دی گئی ہے۔ سیاست کے حوالے سے یہ انبیا کی پاکیزہ سیاست کی پیرو کار ہے۔ انسانیت کے لحاظ سے اس کی دعوت قرآن مجید کی تعلیمات اور رسول اکرم کے اسوے کی پیروی میں ہے۔
مولانا مودودی نے اقامت دین کی جدوجہد کو اور اس کے قیام کو اپنا مطمح نظر بنایا اور اپنی ساری زندگی اس مشن کے ساتھ وابستہ اور اپنی تمام صلاحیتیں اسی مقصد کے لیے کھپا دیں۔ جماعت اسلامی نے یہ طے کیا ہے کہ پاکستان میں وہ کسی خفیہ طرز کے طریقے سے انقلاب یا جدوجہد کو قابلِ اِعتِنا نہ سمجھے گی بلکہ جمہوری طرز اپناتے ہوئے قانونی اور آئینی جدوجہد کے راستے اور انتخابی طریقہ کے حوالے سے ہی اقامت دین کے نفاذ کی کوششوں کو جاری و ساری رکھے گی۔ اس طرح کامیابی کے حصول کے لیے ظاہر ہے کہ جب تک اقامت دین کے مقصد کو لوگوں کے ذہنوں میں راسخ نہ کر دیا جائے اور یہ دعوت ہر شخص تک نہ پہنچا دی جائے، اس کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی جا سکیں گی۔ دعوت کے فروغ کی یہ کوششیں مختلف دائروں میں جاری ہیں۔ معاشرے میں جس طرح سے منکرات کی یلغار ہے ضروری ہے کہ اس کے مقابل دعوتی کوششوں میں مزید بہتری لائی جائے اور دعوت کے دائرے کو مزید وسیع کیا جائے۔ جس طرح سانس کے رواں دواں ہونے پر ہی زندگی کا انحصار ہے اسی طرح آخری سانس تک اسی مقصد کو پانے کی لگن، فکر و جستجو ہی دعوت کا نام ہے۔ اس کام کو بہتر انداز میں کرنے کے لیے جماعت اسلامی میں باقاعدہ ایک تربیتی نظام اور نصاب موجود ہے۔
جماعت اسلامی جیسی جماعت کا اس معاشرے میں وجود ربّ کائنات کی ایک بہت بڑی عنایت اور مہربانی ہے۔ اس معاشرے میں تنہا جماعت اسلامی ایک سیاسی جماعت نہیں ہے اس طرح سے جماعت اسلامی تنہا ایک دینی جماعت بھی نہیں ہے۔ اتنی ساری سیاسی، مذہبی، لسانی اور دیگر جماعتوں میں جماعت اسلامی کے بغیر چشم تصور میں معاشرہ کو دیکھیں تو آپ کو یقین آجائے گا کہ اقامت دین کی جدوجہد کی پہچان رکھنے والی، فلسطین کشمیر کی پشتیبان اور غزہ کے مظلوموں کی عملاً دادرسی کرنے والی، ناگہانی اور قدرتی آفات میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ کھڑی ہونے والی، بلا رنگ و نسل اور سیاسی تفریق کے انسانیت کی خدمت کرنے والی، سیاسی حوادث میں ایک پْل کا کام اور توازن قائم کرنے والی جماعت اسلامی اس معاشرے میں ربّ کائنات کا انعام ہے۔
جماعت اسلامی میں حافظ نعیم الرحمن کے بطور ’’امیر جماعت اسلامی‘‘ کا انتخاب ایک نیا سفر نہیں بلکہ سراج الحق کی قیادت میں جاری سفر کا سلسلہ ہے، بالکل اسی طرح جیسے ریلے ریس میں چھڑی پکڑائی جاتی ہے۔ یہ شہادتوں اور قربانیوں کا لازوال سفر ہے، لیکن عوام اور خواص کی اکثریت ان قربانیوں سے نابلد ہیں اور جو ادراک رکھتے ہیں ان کے اظہار خیال اور سچ کہنے کی بخیلی ہمیشہ حقیقت کے اعتراف میں آڑے آئی ہے۔
محمود شام اس لحاظ سے خاص اور آج کے صحافیوں، اینکر حضرات اور تجزیہ کاروں کی صف میں منفرد نظر آئے کہ انہوں نے بے شک پوری قوم کو یہ پیغام دے کر ’’حافظ نعیم الرحمن میں یہ امکان موجود ہے کہ وہ لوگوں کو قائل کرلیں گے کہ مسئلے کا حل صرف ترازو‘‘، پوری صحافی برادری کو جگایا ہے، دیکھیں کب اور کون اس آواز میں آواز ملاتا ہے۔ بلا شبہ حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی کراچی کی قیادت کرتے ہوئے ایک عالم کو اپنی جانب متوجہ کیا اور نئی رتیں متعارف کرائی ہیں۔ یہی اجتماعیت کی برکات ہیں کہ ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے مستفید ہوں اور مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد جاری رہے اور آگے بڑھنے کا سفر پوری توانائی عزم اور حوصلے سے محض اللہ پر توکل کے جاری رکھا جائے۔ سراج الحق اور حافظ نعیم الرحمن اور جماعت اسلامی سے وابستہ ہر شخص نے یہی اقرار کیا ہے ’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے‘‘۔ (سورہ الانعام: 162)