موجودہ حکومت کو عید کے بعد ایک بار پھر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مینڈیٹ چوری کرنے کے خلاف احتجاجی تحریک کا سامنا ہے اپوزیشن جماعتوں کا موقف ہے کہ ان کا مینڈیٹ چوری کر کے ایک مخلوط غیر منتخب حکومت کو ملک کا اقتدار سونپا گیا ہے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ موجودہ حکومت کو بھی یہ محسوس ہورہا ہے کہ ان کو اقتدار تودے دیا گیا مگر یہ اقتدار بہت کمزور بنیادوں پر وجود میں آیا ہے۔ دوسری جانب عدالتوں کے ججوں کو مشکوک خط موصول ہورہے ہیں جن کی وجہ سے ایک نیا تنازع جنم لے رہا ہے اور موجودہ حکومت خود کو اس معاملہ میں بے بس ظاہر کر رہی ہے۔ ساتھ ہی تحریک انصاف کے بانی کو عدالتوں سے مسلسل ریلیف فراہم ہو رہا ہے جس سے شہباز حکومت مزید بحران کی جانب جاسکتی ہے۔ یقینا شہباز شریف سیاسی مفاہمت پر یقین رکھتے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں مگر ان کے ہاتھ بھی پارٹی کے اندر اور باہر بندھے ہوئے ہیں۔ ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی طاقتور حلقوں سے تو مفاہمت کی خواہش رکھتے ہیں مگر سیاسی جماعتوں سے جن میں تحریک انصاف جو احتساب کرپشن کا خاتمے کی سیاست پر یقین رکھتی ہے ایسی جماعتوں کے ساتھ ن لیگ کی مرکزی قیادت مفاہمت نہیں چاہتی۔
اور یہ ہی وہ رویہ ہے جس نے ملک و قوم کو سنگین بحران کا شکار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے دوماہ ہونے کو ہیں اور موجودہ حکومت عوامی مسائل پر کوئی موثر ریلیف عوام کو دینے میں ناکام رہی ہے۔ رمضان المبارک کے اس با برکت مہینہ میں بھی عوام کو ریلیف فراہم نہیں کر سکی بلکہ پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام کو مزید مشکلات میں مبتلا کر دیا اور عید کے بعد عوام کو آئی ایم ایف کے رحم وکرم پر مزید مہنگائی کے عذاب میں ڈال دیا جائے گا۔
ماضی کی حکومتوں نے بھی عوام کو مہنگائی بے روزگاری کے سوا کچھ نہیں دیا اور موجود حکومت جو عوام کو ریلیف مہنگائی بے روزگاری کے خاتمے کا بیڑا اُٹھا کر چلی تھی جس میں زرداری صاحب کی پیپلزپارٹی بھی ان کے ساتھ شامل تھی بلاول صاحب نے تو بجلی کے کم یونٹ استعمال کرنے والوں کا بجلی کا بل معاف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مگر کیا ہوا تیرا وعدہ۔ بلاول صاحب نے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ن لیگ کے ساتھ مل کر اپنے والد محترم کو صدر مملکت بنانے کے سودے کو زیادہ ضروری سمجھا۔ پیپلزپارٹی اگر یہ سمجھ رہی ہے کہ عوام جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت ن لیگ کی ہے تو شاید بلاول صاحب احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں شہباز حکومت قائم ہوئی تھی وہ بھی پیپلزپارٹی کی وجہ سے ہوئی اور اس وقت بھی پیپلزپارٹی حکومت میں ہے جس سے پاکستان کے عوام باخبر ہیں اگر پیپلزپارٹی کی قیادت ملک و قوم کو ردپیش مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی سیاست میں اپنا مثبت رول ادا کرتی تو عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی عوام کے ووٹ کے تحفظ کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر آواز اُٹھاتی تو یقینا عوام میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا مگر افسوس زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی ہر بار ن لیگ کے ہاتھوں ذاتی مفاد میں ہائی جیک ہوتی آئی ہے۔ موجودہ حالات کی سنگینی پر نظر ڈالیں تو برسر اقتدار حکومت سیاسی معاشی اندرونی و بیرونی بحرانوں کی زد میں ہے اور یہ کمزور حکومت شاید ان بحرانوں کا بوجھ زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکے جس کی تمام تر ذمے داری ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر عائد ہوگی۔ یہ تینوں جماعتیں تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے میں بھی ایک ساتھ تھیں اور آج بھی انتخابی دھاندلی پر پردہ ڈال کر اقتدار پر ایک ساتھ براجمان ہیں۔ ماضی گواہ ہے کہ یہ تینوں جماعتیں ہمیشہ عوامی مسائل کا تماشا بنا کر اقتدار کے مزے لیتی رہی ہیں اور اقتدار سے اُترتے ہی ایک دوسرے پر آمیز الزامات عائد کرتی آئی ہیں۔ اگر ایم کیو ایم کی بات کی جائے تو ایم کیو ایم نے عوام دشمن ہونے کا کردار ادا کیا کراچی جو آج دہشت گردوں جرائم پیشہ عناصر کے رحم وکرم پر ہے عوام کو پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت روند رہی ہے مگر ایم کیو ایم کی مسلسل خاموشی نے کراچی کے عوام کی نظر میں ایم کیو ایم کو عوام دشمن تسلیم کر لیا ہے۔
آج وطن عزیز کو جہاں بیرونی سطح پر خطرات کا سامنا ہے وہاں دوسری جانب اندرون ملک بھی ملک و قوم مسائل کی زد میں ہے یقینا عام انتخابات میں دھاندلی کے تمام تر ریکارڈ توڑ دیے گئے ہیں عوامی مینڈیٹ کو رد کر کے ایک مخلوط حکومت کو ذاتی خواہش کی بنیاد پر ملک کا اقتدار سونپ دیا گیا ہے جس پر اپوزیشن اور عوام میں غم وغصہ پایا جارہا ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ اپوزیشن کی بھی اولین ذمے داری ہے کہ وہ ملک و قوم کو مزید نقصان کی جانب نہ دھکیلے سڑکوں پر احتجاج کی سیاست کو بند کریں پارلیمنٹ میں اپوزیشن ایک مضبوط جماعت کے طور پر سامنے ہے ایسا لائحہ عمل بنایا جائے جس سے آئین میں رہتے ہوئے دھاندلی کی جنگ کو جیتا جاسکے اور دوسری جانب مخلوط حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جاسکتی ہے جس پر اپوزیشن کی جماعتوں کو کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ خان صاحب ماضی میں بھی سڑکوں پر بڑے عوامی اجتماع کر چکے ہیں مگر ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکا بلکہ ان احتجاجوں نے تحریک انصاف کو ۹ مئی جیسے واقعات میں ڈال کر آج دیوار سے لگا دیا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت اگر سمجھتی ہے کہ ان کے ساتھ بھی دھاندلی کی گئی ہے اور ان کو زبردستی اقتدار دیا گیا ہے تو ایک کمیشن قائم کیا جائے جو غیر جانبدار شفاف تحقیقات کرے تاکہ دھاندلی کا یہ بازار ایک بار مکمل بند کر کے صاف شفاف غیر جانبدار حکومت کا قیام عمل میں لیا جاسکے جو تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی سیاست کو ایک نئی سمت دے سکے۔