…شرم تم کو

658

خبر ہے کہ کچے کے ڈاکوؤں کو آئی ٹی کی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ٹھیکیدار گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے ریاست مدینہ کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی لے لیا ہے۔ اس سلسلے میں ٹیسوری صاحب نے مفتی تقی عثمانی سے ملاقات کی اور مدینہ کی ریاست سے متعلق خدوخال پر بات کی۔ مفتی تقی عثمانی سے ملاقات کے حوالے سے گورنر سندھ نے بتایا کہ مدینہ کی ریاست بنانے کا وعدہ کسی اور نے کیا، عمل کا موقع مجھے مل رہا ہے۔ اس ملاقات میں مفتی صاحب نے ٹیسوری صاحب سے کیا کہا وہ تو سامنے نہیں آسکا۔ البتہ گورنر سندھ نے بتایا کہ مفتی تقی عثمانی سے ان کی ملاقات کا مقصد مدینہ کی ’’ریاست کے نفاذ‘‘ کی کوشش ہے۔ انہوں نے مفتی صاحب سے مدینہ کی ’’ریاست کا مسودہ‘‘ بنانے کی درخواست کی ہے۔ ٹیسوری صاحب کے مطابق ریاست مدینہ کے مختلف فیزز ہوں گے۔ (ریاست مدینہ کے نئے ٹھیکیدار ٹیسوری صاحب غالباً ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کی طرز کی ٹاؤن پلاننگ سے کافی متاثرہیں)۔ انہوں نے بتایا ہے کہ پہلے فیز میں مدینہ کی ریاست (کا فیز 1) سندھ میں نافذ کرنے کا ارادہ ہے‘‘۔
ٹیسوری صاحب کو علم ہے کہ یہ ٹھیکہ پہلے کسی اور کو دیا گیا تھا (لیکن وہ نہیں کرسکا تو) اب یہ کام انہوں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ بیان سے لگتا ہے کہ غالباً یہ وہی جدید ریاست مدینہ ہے جو ایک کھلاڑی کی کپتانی میں ساڑھے تین سال تک پاکستان میں نافذ رہی۔ اس قسم کی ریاست مدینہ کے لیے مفتی تقی عثمانی صاحب کے بجائے ’’حافظ جی‘‘ کے دربار میں حاضری اور ان کی اجازت اور ان کی طرف سے ہدایات درکار تھیں۔ کیا ٹیسوری صاحب بتا سکتے ہیں (سندھ کو ریاست مدینہ کا فیز 1 بنانے یا) سندھ میں ریاست مدینہ کے ’’نفاذ‘‘ کے لیے انہوں نے ’’اپنے ان‘‘ سے اجازت لے لی ہے جنہوں نے ان کو سندھ میں گورنر کے طور پر ’’نافذ‘‘ کیا ہوا ہے۔ اس اجازت کے بعد ٹیسوری صاحب آپ کو ان سے بھی پوچھنا ہوگا جنہوں نے سندھ میں آپ کے ’’نفاذ‘‘ کو قبول اور برداشت کیا ہوا ہے۔
فیزز میں ریاست مدینہ کی تعمیر سے تو لگتا ہے کہ ان کے دماغ میں ریاست مدینہ کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے۔ اس صورت میں ان کو مفتی صاحب کے بجائے بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کے پاس جانا چاہیے تھا۔ اگر ان کی مراد وہ ریاست مدینہ ہے جو رحمۃ للعالمین محمدؐ نے قائم فرمائی تھی اور نبی کریمؐ کے بعد جس کے سربراہ سیدنا ابو بکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ تھے تو پہلی گزارش یہ ہے کہ اس مقدس نام کو ساتھ مذاق نہ بناؤ! تقی عثمانی صاحب سے مسودہ ضرور بنواؤ اگر وہ بنا دیں تو۔ لیکن مسودے کی درخواست سے پہلے اصل ریاست مدینہ کے بانی محبوب کائنات محمدؐ کی سیرت اور احادیث اور خلفاء راشدین کی سیرتوں کا مطالعہ کرلیتے تو شاید تم گورنر ہاؤس ہی چھوڑ جاتے۔ یقین سے کہتا ہوں ریاست مدینہ کی تعمیر کے لیے جس اعلیٰ کردار کی ضرورت ہے اس کی تمہیں کبھی ہوا بھی نہیں لگی۔ خلفاء راشدین اور عمر بن عبدالعزیزؒ کی سیرت پڑھ لیتے تو تمہیں پتا چلتا کہ ریاست مدینہ کے معماری کے لیے سب سے پہلی شرط دنیوی آقائوں کی غلامی سے مکمل آزادی اور ربّ کی مکمل غلامی و بندگی ہے۔ مینڈیٹ چوروں، زرداریوں، شریفوں اور بھتا خوروں کے غلام نمائندے اس مقدس مشن کے اہل نہیں ہوسکتے۔ عوام تمہارے ’’عزم‘‘ کو خوب سمجھتے ہیں۔
یاد رکھو کہ اگر ریاست مدینہ کے مقدس نام کو اپنی سستی شہرت اور اپنے گھٹیا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے کے لیے دنیا وآخرت کی رسوائیاں ہیں۔ ایسے لوگ دونوں جگہ عبرت کا نشان بنا دیے جائیں گے۔ تم لے لو مسودہ اگر مل سکے تو۔ تم سے پہلے ایک بہت طاقتور شخص گیارہ سال تک مسودے جمع کرتا رہا۔ ان مسودوں سے امت کو کچھ نہ ملا۔ وہ مسودے مرحوم کے ساتھ ہی کہیں دفن ہوگئے۔ ریاست مدینہ کا ایک اور دعوے دار ابھی اپنے ٹک ’’ٹکڑوں‘‘ سمیت دنیا میں موجود ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس سے مشورہ کرلو۔
آخری مشورہ یہ ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کی زندگی کا مطالعہ کر لو۔ ہدایت ربّ کا اختیار ہے کسی کو بھی کبھی بھی دے سکتا ہے۔
’’بے شک تو ہدایت نہیں کر سکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے، اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے‘‘۔ (القصص: 56 )
افسوس ہے کہ انسانی تاریخ کی بابرکت ترین انسان دوست ریاست مدینہ وطن عزیز کے کوتاہ عقل سیاسی کھلاڑیوں کے ’’اسلامی ٹچ‘‘ کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے۔ مفتی صاحب نے اس درخواست پر گورنر کو کیا جواب دیا، یہ پتا نہیں۔ ایک بات تو یہ ہے کہ گورنر صاحب (خبر کے مطابق) ریاست مدینہ بنانا نہیں، ’’نافذ‘‘ کرنا چاہتے ہیں! ریاست مدینہ نافذ کیسے ہوگی یہ گورنر صاحب ہی جانتے ہیں۔ ان جعلسازوں نے ملک کو مذاق بنایا ہوا ہے۔ جمہوریت کے نام پر تماشا لگایا ہوا ہے۔ اخلاقیات اور انسانی معاشرتی عائلی اصولوں اور اقدار کی مٹی پلید کرنے کے بعد ریاست مدینہ جیسا مقدس ادارہ بھی ان کی جعلسازی کا تختہ مشق بن چکا ہے۔ ان جعلسازوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ سادہ لوح مسلمان یہ جان لیں کہ ریاست مدینہ کیا تھی؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست مدینہ کے بانی رحمۃ للعالمین محبوب کائنات محمدؐ تھے۔ آپؐ کے بعد خلفاء راشدین نے اس ریاست کی باگ ڈورسنبھالی۔ یہ سب اللہ کے سچے بندے تھے کسی دنیوی طاقت کے کسی بھی طرح غلام نہیں تھے۔ ریاست مدینہ کے حکمران دارالحکومت کی مرکزی مسجد (نبوی) کے امام ہوا کرتے تھے۔ ریاست مدینہ کے سربراہ قرآن کے اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم ہوتے تھے۔ ریاست مدینہ کے سربراہ عوام کے ہمدرد اور ان کی حفاظت اور معاشی فلاح کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے والے ہوتے تھے۔ وہ اپنے دور کے بہترین منتظم بہترین مفسر اور بہترین فقیہ ہوتے تھے۔ ریاست مدینہ کے حکمران اللہ کے حضور جوابدہی کے احساس سے واقف ہونے کی وجہ سے اپنے فرائض منصبی ہمیشہ بہترین طور پر ادا کرتے تھے۔ ریاست مدینہ میں تمام شہری اللہ کے بندے ہونے کے ناتے برابر سمجھے جاتے تھے۔ مالی حیثیت، عہدے یا رشتے داری کی بنیاد پر کسی کو کسی پر کوئی فضیلت یا برتری حاصل نہیں تھی۔ کوئی وی آئی پی کلچر ریاست مدینہ میں وجود نہیں رکھتا تھا۔ کسی حکمران کے لیے راستوں سے گزرنے کے لیے ’’ہٹو بچو‘‘ کی صدائیں نہیں لگتی تھیں۔ ریاست مدینہ کا نام لینے سے پہلے اپنے کردار کا جائزہ لو۔ اپنی خواہشات اور دنیوی طاقتوں کی غلامی سے نجات حاصل کرو۔