پاکستان میں ایک ادارے کی ناکامی کے بعد دوسرا بنایا جاتا ہے اور پہلا ادارہ بھی چلتا رہتا ہے۔ پھر دونوں کے درمیان رابطے کے لیے تیسرا ادارہ بنایا جاتا ہے۔ صوبوں اور وفاق میں ایسے کئی ادارے موجود ہیں، بار بار امن وامان سنبھالنے کے لیے رینجرز اور فوج کی ذمے داری لگائی جاتی ہے، حکمران دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سخت اقدام کیا جائے گا، سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کی ہدایت کردی گئی وغیرہ جیسے بیانات دیتے ہیں۔ اس وقت کراچی دہشت گردوں، اسٹریٹ کرمنلز اور ہر قسم کی لوٹ مار کرنے والوں کی جنت بنا ہوا ہے۔ جب حد سے زیادہ وارداتیں ہوجاتی ہیں تو کبھی رینجرز کے اختیارات میں مزید چار ماہ کی توسیع کردی جاتی ہے کبھی کوئی خصوصی اجلاس بلایا جاتا ہے، کوئی اسپیشل یونٹ بنادیا جاتا ہے یا نیشنل سیکورٹی یا قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرلیا جاتا ہے۔ لیکن نتیجہ صفر بٹا صفر ہی نکل رہا ہے۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے دوران قتل کی وارداتوں میں لوگوں کی شہادتوں کے بعد ملزمان کا سراغ لگانے کی ذمے داری اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کو دی گئی لیکن وہ اس کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ آئی جی سندھ نے اس حوالے سے خصوصی اجلاس میں یہ ذمے داری ایس آئی یو کو دی تھی لیکن وارداتوں میں اضافہ ہوگیا اور ہلاکتیں بھی بڑھ گئیں۔ اسی طرح اہم مقدمات میں ملوث ملزمان کے خلاف تفتیش کا ٹاسک شہر کے 67 بہترین پولیس افسران کو دیا گیا، معاصر روزنامہ جنگ کی خصوصی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ’’بہترین‘‘ پولیس افسران بھی قتل کی وارداتوں میں ملوث کسی ایک ملزم کو بھی گرفتار نہیں کرسکے ہیں۔ اب تک پچاس سے زیادہ افراد جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں جبکہ صرف رمضان المبارک میں ڈیڑھ درجن افراد قتل ہوچکے ہیں اور بعض واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوپاتے، لوٹ مار اس درجہ بڑھ گئی ہے کہ لوگ دن کے وقت بھی سنسان سڑک کا رُخ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ بازار جانے والے لوگ بھی ساتھ لے جائی جانے والی رقم تین چار لوگوں کے پاس الگ الگ رکھواتے ہیں کہ اگر کوئی لٹ جائے تو رقم کا کچھ حصہ تو بچ جائے۔
جرائم کے اس سارے دھندے میں معاونت سڑکوں پر اندھیرا، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بھی ہیں، خود پولیس چیکنگ کے لیے ناکے لگا کر موٹر سائیکل سواروں کو لوٹنے میں مصروف رہتی ہے، جرائم کی بیخ کنی کے لیے قائم ایک اور ادارے کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اسٹریٹ کرائم میں ملوث شخص کو گرفتاری کے بعد چھوڑ دیا۔ خبر کے مطابق موچکو تھانے میں ایک شخص کے قتل میں ملوث ملزم کو کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ سی ٹی ڈی نے گرفتار کیا اور اصل ملوث ملزم کو چھوڑ کر دوسرے کی گرفتاری ظاہر کردی۔ خود سی ٹی ڈی کے ذرائع رہا کیے جانے والے ملزم کو پانچ رکنی ڈکیت گروہ کا سرغنہ بتاتے ہیں۔ ایسے میں 67 تو کیا 670 اعلیٰ ترین باصلاحیت افسران بھی کسی ملزم کو نہیں پکڑ سکتے۔ شہری اسی طرح مارے جاتے رہیں گے۔ پاکستان میں جتنے تجربات امن وامان کے قیام کے لیے کیے گئے ہیں اتنے شاید دنیا میں کہیں نہیں کیے گئے۔ پولیس، سی آئی ڈی، ایف آئی اے، سی ٹی ڈی اور نہ جانے کیا کیا۔ پھر رینجرز اور اس کے خصوصی سیل اور فوج ان سب اداروں کے بوجھ قومی اور صوبائی خزانوں
پر پڑتے رہے اور لوگ سڑکوں پر مرتے رہے ہیں۔ سینئر پولیس افسروں نے بار بار پولیس پر سرکار کے اپنے ہی عدم اعتماد کے رویہ کو نامناسب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اصل کام پولیس کے محکمے کی اصلاح ہے اور اس کے لیے کسی خصوصی یونٹ کو ٹاسک دینے کے بجائے تھانے میں شعبہ تفتیش کے ماہر افسروں کی تعیناتی ضروری ہے اور تھانوں میں جو تفتیشی افسران ہیں انہیں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور خصوصی تربیت کے مراحل سے گزارا جائے۔ اس کے علاوہ ایک اہم مسئلے کی جانب حال ہی میں نومنتخب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے توجہ دلائی تھی کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانے کے لیے مقامی پولیس ناگزیر ہے۔ لیکن سندھ میں ایک ہی مزاج اور سیاسی خیالات کے لوگوں کی مسلسل حکومت کے نتیجے میں اب تو بنیادی ضرورت کراچی میں پولیس کی ہے۔ جو افسران پولیس کے نام پر براجمان ہیں وہ پولیس کہلانے کے مستحق نہیں رہے۔ پورے ادارے کی بدنامی کا سبب ہیں اگر اس جانب فوری سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی تو شہریوں میں سخت ردعمل ابھر سکتا ہے۔ اور ایسی صورت میں امن وامان کو مزید چیلنجز درپیش ہوں گے۔ حکمرانوں کا کام تو اجلاس، اجلاس اور اجلاس تک محدود رہتا ہے یا ایک نیا ادارہ وجود میں لانا ان کا کام ہے۔ محولہ بالا اداروں کے علاوہ بھی کئی ادارے ہیں جن میں سی پی ایل سی، اے سی ایل سی اور اے وی سی سی بھی شامل ہیں۔ جبکہ برسہا برس سے شہر کو سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے نگرانی میں لانے کا منصوبہ چل رہا ہے۔ کروڑوں روپے کیمروں کی تنصیب پر لگ چکے ہیں لیکن ایک سے ایک تماشا ہوتا ہے۔ کبھی ان کیمروں کی نگرانی ہی ان لوگوں کے حوالے ہوتی ہے جو جرائم میں ملوث یا ان کی سرپرستی کررہے ہوں۔ دوسری جانب سی سی ٹی وی فوٹیج اور سرکاری کیمروں سے جتنے بھی جرائم کی فوٹیج ملی ہیں ان سے کتنے جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے جب پولیس ہی جرائم کی سرپرستی کرے گی تو جتنے اسپیشل یونٹ بنالیے جائیں سب بے کار ہوں گے۔ اصل چیز یہ ہے کہ اداروں سے سرکار اور با اختیار لوگ اپنے کام نہ لیں بلکہ ان کو اپنا کام کرنے دیں تب ہی وہ ان کے غلط کاموں پر گرفت کرسکیں گے۔ اگر حکمران پولیس اور خفیہ اداروں سے اپنا کام لیں گے، غیر قانونی کام کروائیں گے تو یہ ادارے بھی غلط کام کریں گے۔ جب پاکستان میں پولیس سے غلط کام شروع کروائے گئے تھے تو اس زمانے کا ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا کہ امریکا، برطانیہ اور کئی ملکوں سے پولیس سربراہان کا اجلاس ہوا جس میں امریکی پولیس نے فخریہ بیان کہا کہ ہم واردات کے ایک ہفتے کے اندر اندر مجرم کو پکڑ لیتے ہیں۔ اس پر فرانسیسی پولیس سربراہ نے بتایا کہ ہم چار دن میں مجرم کو گرفتار کرلیتے ہیں۔ برطانیہ تو سراغراساں اداروں کا مائی باپ مشہور ہے اس کے سربراہ نے کہا کہ ہم ایک ہی دن میں مجرم پکڑ لتے ہیں۔ پاکستانی پولیس کے سربراہ سے پوچھا گیا کہ اب آپ کیا کہتے ہیں۔ جناب تو اس نے بڑے اطمینان سے کہا کہ ہمیں ایک دن قبل معلوم ہوتا ہے کہ کہاں کون سا جرم ہونے والا ہے۔ یہ لطیفہ اسی طرح یا تھوڑا مختلف انداز میں برسوں گردش کرتا رہا لیکن اب اس کے ثبوت بھی مل رہے ہیں کہ پولیس کو ایک دن قبل واردات کا علم کیوں ہوتا ہے۔ سنجیدگی سے اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان بھی بدنام ممالک میں مزید اوپر آجائے گا۔