یہ مبارک مہینہ بڑی تیزی سے اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ کتنے ہی لوگ ہوں گے جنہوں نے پورے روزے رکھے ہوں گے، اور اس ماہ مقدس کی برکتوں کے مستحق ٹھیریں گے، اور کتنے ہی ایسے بھی ہوں گے جن کو یہ پتا ہی نہیں چلا ہوگا کہ کب رمضان آیا اور کب گزرگیا۔ اللہ سب کی نیتوں، ارادوں، اعمال و افعال کا نگراں ہے وہ دلوں کے بھید تک جانتا ہے ڈھکے چھپے کاموں سے واقف ہے، اور بندوں کو بہرحال اس کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی پڑے گی۔
جب روزہ داروں نے خلوص دل اور نیک نیتی کے ساتھ پورے ذوق و شوق سے اللہ کے حکم کی تعمیل کی اور تیس دن تک اس کے مقرر کیے ہوئے ڈسپلن کے تحت زندگی کے معمولات انجام دیتے رہے، وہ اللہ کے فضل و کرم سے محروم نہیں رہ سکتے، ان کے لیے ان کے ربّ کی طرف سے دنیا میں بھی بھلائیاں ہیں اور آخرت میں بھی۔
رمضان کے ان آخری چند دنوں میں کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ روزہ دار اس ماہ کے معمولات کا جائزہ لے کر دیکھیں اور اپنا احتساب آپ کرکے جانچیں کہ انہوں نے ماہ رمضان کے تقاضوں کو کس حد تک پورا کیا اور کس حد تک نہیں۔
رمضان کا مہینہ دراصل تربیتی نصاب کی تکمیل کا مہینہ ہے جو لوگ اس ایک ماہ کے ٹریننگ کورس میں شریک رہے ہیں ان کی کارکردگی کا ریکارڈ اللہ کے پاس محفوظ ہے، جس کے نتائج کا علم ہم کو نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی کارکردگی کا آپ جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ اس تربیت کے نصاب کو پورا کرتے ہوئے ہم سے کیا غلطیاں ہوئیں کون کون سی ضروری باتیں تھیں جن کو انجام نہیں دیا، بس ٹالنے اور بیگار پوری کرنے تک دوڑ پوری کر لی۔ کن باتوں سے بچنا اور ان سے دور رہنا ضروری تھا مگر غفلت اور لاپروائی کے سبب ہم ان ناپسندیدہ باتوں کو ترک نہ کرسکے اور ان کے مرتکب ہوتے رہے۔
اس جائزہ اور احتساب کے لیے کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم اس ایک ماہ کے ٹریننگ کورس کے مقصد کو ایک مرتبہ پھر ذہن میں تازہ کرلیں تاکہ اس معیار پر اپنی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ لگا سکیں۔ اس سلسلۂ مضامین کے ذریعہ ہم روزہ کے مقصد اور اس کے فائدوں پر تفصیلی طور پر روشنی ڈال چکے ہیں انہیں اگر مختصراً ایک جگہ سمیٹ لیا جائے تو ان کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔
روزہ قْرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ روزہ ضبط ِ نفس کی تربیت دیتا ہے۔ روزہ اچھے اخلاق پیدا کرتا ہے۔ روزہ بْرے خیال اور بْرے عمل سے روکتا ہے۔ روزہ وقت کا پابند بناتا ہے۔ روزہ سخت کوشی اور تحمّل کی عادت ڈالتا ہے۔ روزہ نیکیوں کے لیے اجتماعی ماحول پیدا کرتا ہے۔ روزہ افراد کو ڈسپلن کا عادی بناتا ہے۔ روزہ اطاعت ِ امر اور تنظیم کی مشق دلاتا ہے۔ روزہ ایثار وہمدردی اور فیاضی کے جذبات کو ابھارتا ہے۔
یہ ہیں وہ مقاصد اور فائدے جس کے لیے ماہ رمضان کا یہ ٹریننگ کورس مسلمانوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے اب جن لوگوں انتیس دن تک روزے رکھے ہیں وہ اپنے آپ کو ذرا پرکھ لیں کہ ان اغراض و مقاصد کے لیے انہوں نے اس تربیتی نصاب کو کس طرح انجام دیا، اور اصلاح حال کے لیے روزوں کی اس تربیت سے کتنا فائدہ اٹھایا کیونکہ اگر روزے کے یہ مقاصد اور تقاضے پس پشت ڈال کر کوئی تیس دن تک بھوکا پیاسا رہ گیا ہو تو اس کو اپنی زندگی میں ان روزوں سے کوئی عملی فائدہ نہیں مل سکے گا۔ اب رہ گئی آخرت کی بات تو یہ اللہ کی شان کریمی ہے کہ وہ اس کی بھوک پیاس کو قبول فرمالے اور جس طرح ناکام طلبہ کو رعایتی پاس کر دیا جاتا ہے اسے بھی آخرت کے امتحان میں کامیاب کردے، اور اگر ماہ رمضان میں اس کے ناپسندیدہ اطوار اس کی سستی کاہلی اور لاپروائی اللہ کو ناپسند گزری ہو تو پھر یہ تیس دن کے روزے بے کار ہی گئے، بے فائدہ بھوکا رہا کہ سختی بھی اٹھائی اور اس کے اجر سے بھی محروم رہا خدا ایسی محرومی سے ہر ایک کو بچائے۔
بہر حال اس احتساب اور جائزے سے اپنی کامیابی اور ناکامی کے بارے میں کچھ نہ کچھ تو اندازہ ہو جائے گا، اگر یہ صورت ہو کہ اس ٹریننگ میں اس سے غلطیاں ہوئی ہیں تو پھر یہ رمضان کی آخری راتیں اور خاص طور سے طاق راتیں اللہ کے حضور شْکرانہ ادا کرنے میں بسر ہوں کہ شْکر اجر کو بڑھا دیتا ہے۔
شْکر اس بات کا کہ اللہ نے یہ توفیق دی اور روزوں کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ بنا دیا، اور اگر کچھ حساب کتاب ایسا نکل آئے کہ بھوک پیاس کے سوا کوئی اور خوبی جڑتی ہی نہ ہو تو پھر ان آخری راتوں میں جن میں شب قدر کی مبارک رات بھی ہے اللہ سے مغفرت طلب کی جائے اور گڑگڑا کر اس سے رحم کی درخواست کی جائے کہ ہمارا عمل تو اس قابل نہیں، مگر مالک تو اپنی بندہ پروری سے ہمارے ان فاقوں کو قبول فرمالے۔