ہر طرف تاریکی کا رونا رویا جارہا ہے انسان ماحول کا اثر لینے میں دیر نہیں لگاتا سردی گرمی جس طرح جسم پر اثر ڈالتی ہے ماحول کو دیکھ کر انسان کا دل و دماغ بھی خوشی، غم اور خوف کی کیفیات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ پوری دنیا میں اور ملک کے اندر یہ ٹھیک ہے کہ حکمرانوں کی طرف سے مایوس کن خبریں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ گھٹا ٹوپ اندھیرا چاروں طرف ہے اور خاص طور پر مسلم حکمرانوں کی طرف سے۔ لیکن بہر حال دنیا امتحان گاہ ہے ہر کوئی اپنا پرچہ حل کررہا ہے نتیجہ تو مالک کائنات اُس دن سنا دے گا اور نامہ اعمال کسی کے دائیں ہاتھ اور کسی کا کے بائیں ہاتھ میں تھما دے گا اور پھر تصّور سے ما وراء عیش کی زندگی یا اس کے برعکس تصّور سے ماوراء عذاب۔ ایک صاحب ایک واقعہ سنا رہے تھے کہ چند لوگ دعوت افطار میں جمع تھے اور ایک صاحب نے گلوگیر آواز میں غزہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی صورت حال بڑی غمناک ہے افطار پر میں اپنے دستر خوان کو دیکھتا ہوں بہت ساری نعمتیں موجود ہوتی ہیں تو اہل غزہ کا دستر خوان نظروں کے سامنے آ جاتا ہے کہ وہاں گھاس پانی اور لیمو موجود ہے یہ دیکھ کر دل بڑا اداس ہوجاتا ہے۔ دوسرے صاحب نے بھی اپنے جذبات اسی طرح اظہار فرمایا۔ تیسرے صاحب نے کہا یہ رمضان گزشتہ رمضانوں سے مختلف ہے وہ اس طرح کہ غزہ میں بتیس ہزار مسلمان شہید ہوچکے ہیں جس میں بڑی تعداد بچّوں اور خواتین کی ہے اور آنے والی عید بھی گزشتہ عیدوں سے مختلف ہوگی ہر عید پر میں اپنے بچّوں کو عیدی دیا کرتا ہوں مگر اس بار عید پر میں اپنے بچوں کو عیدی نہیں دوں گا بلکہ وہ عیدی میں غزہ کے بچّوں کو دوں گا۔ ایک بچی جو ان کی بیٹی تھی زور سے بولی بابا میری عیدی تو آپ مجھے ہی دیں گے میں اپنی عید ضرور لوں گی بلکہ پہلے سے زیادہ… وہ صاحب اپنی ننھی بیٹی کو سمجھانے کے لیے غزہ کے زخمی اور شہید ہونے والے بچّوں کی تصاویر دکھاتے ہیں۔ بچّی کہتی ہے کہ نہیں ہماری عیدی تو آپ ہمیں ہی دیں گے۔ ہم نے پہلے سے سوچا ہوا ہے کہ ہم اپنی تمام عیدی جمع کرکے غزہ بھیجیں گے۔ ہم نے پہلے بھی اپنے گلک کے پیسے غزہ فنڈ میں جمع کرائے ہیں اور اسکول میں بھی ہم نے غزہ فنڈ بکس غزہ کے بچّوں کے لیے عطیات جمع کرنے کے لیے بنا یا ہے۔ اور ہماری ٹیچر نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ بچّوں کو مارنے والے یہودیوں کے ملک اسرائیل کی کون کون سی چیزیں ہم دکانوں سے خریدتے ہیں جس سے حاصل ہونے والے پیسوں سے اسرائیل بم اور گولہ بارود خریدتا ہے اور غزہ کے بچّوں کو قتل کرتا ہے ہماری پوری کلاس کے بچّے اب ان چیزوں کے بجائے پاکستانی چیزیں خریدتے ہیں۔ اتنے میں قریب سے ایک دوسرے بچّے نے کہا کہ میں نے تو اپنے فیوریٹ لیز کو بھی کھانا چھوڑ دیا ہے میں اپنے پیسوں سے غزہ کے بچّوں کو قتل نہیں کرسکتا۔۔۔
یہ مبنی بر حقیقت ہے کہ مسلم حکمران طبقہ خود اقتدار کے نشے میں دھت ہے اس کو اپنے اقتدار علاوہ کسی کی پروا نہیں ہے وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ عوام کو بھی کسی طرح سلا دیا جائے مگر جس عوا م کے بّچوں کے جذبات یہ ہوں اس کو آپ کیا کہیں گے یہ حقیقتیں ہیں ساری دنیا میں عوام سراپا احتجاج ہیں ایک ایک بچّہ اسرائیل کو دہشت گرد کہہ رہا ہے مگر مسلم ممالک کی افواج اپنے ہی عوام کو فتح کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دے رہی ہے اسی میں اپنی صلاحیت، سرمایہ اور جانیں گنوا رہی ہے۔ مسلم حکمران طبقہ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا اور یورپی ممالک کی کاسہ لیسی کرتے نظر آرہے ہیں۔ بہت سے بہت یہ مذمتی قرارداد پاس کرکے رہ جاتے ہیں اس سے آگے بڑھتے ہیں تو جنگ بندی کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں ان مطالبوں اور مذمّتی قرار دادوں سے ہوگا کیا؟ ادھر اسرائیل کے دہشت گرد حملے جاری ہیں ادھر امریکی صدر اسرائیل کے دورے کرکے اس کو مدد کی یقین دہانیاں کرارہا ہے اور امریکی وزیر خارجہ عرب ممالک کے دورے کرکے سب سے غزہ کے مکمل تباہ کرنے کے لیے جو بھی ممکنہ رکاوٹیں عرب حکمرانوں کی طرف سے ہوسکتی ہیں اس کو دور کرکے انہیں اپنا ہمنوا بنا رہا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم کررہا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی حکومت اسرائیل کے بجائے حماس کو مدد فراہم کررہی ہے جن ممالک نے اسرائیل کو سرکاری سطح پر تسلیم کرلیا ہے وہ تو اسرائیل کی ہر طرح کی مدد کے پابند ہیں۔ ہمارا بوٹ پالیشر بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد خاموش ہوگیا ہے اور کسی نیم کے درخت کے نیچے بوٹ بالش کرنے کی خدمت انجام دے رہا ہے وہ جانتاہے کہ جس امریکا کی آشیرباد سے وہ اقتدار تک پہنچا ہے اسرئیل اس کا بغل بچّہ ہے اگر اس کی خلاف یا حماس کی حمایت میں کوئی بیان بھی دیا تو جیسی سزا بڑے بھیّا کو ملی ہے کہیں مجھے بھی وہی سزا نہ مل جائے لہٰذا تابعدار سائیں والی پالیسی اختیار کرنے میں ہی عافیت ہے۔
گزشتہ دنوں پھر ایک اسرائیل کو ہتھیار اور گولہ بارود کی فروخت پر پابندی کی قرار داد او آئی سی کی طرف سے انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی جس کی حمایت اٹھائیس ممالک نے کی جبکہ تین ممالک نے اس قرارداد کی مخالفت کی اور تیرہ نے اس رائے شماری میں حصّہ نہیں لیا۔ تعجب خیز بات ہے کہ اتنی دور جاکر قرار داد پیش کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی اگر اپنے ہی ملک میں سرکاری سطح پر اسرئیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیتے آخر ان بچّوں نے اپنے جیسے دوسرے غزہ کے بچّوں کے قاتل اسرائیل کی لیز کے اور دوسری چیزوں کے لیے کیا ہے نا۔۔۔۔ اسی کو کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا۔ اپنے کسی بچّے کو عیدی دیتے وقت یہ سوچیے کہ غزہ کے بچّوں کو عیدی کون دے گا۔