عقل ِ کل

517

ایڈیشنل ڈی سی بہاولپور کو پٹہ ملکیت کے لیے درخواست دیے دو سال کو عرصہ بیت چکا ہے مگر موصوف ہر پیشی پر کوئی نہ کوئی اعتراض لگا کر اگلی پیشی دے دیتے ہیں اْن کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ الاٹمنٹ کی اصل فائل نہیں مل رہی ہے۔ ہم نے کہا کہ جنابِ والا اصل فائل نہ ملنے میں ہمارا کیا قصو ر ہے؟ آپ اپنے عملے کو کہیے کہ فائل پیش کرے مگر کئی پیشیوں کے بعد بھی موصو ف اپنے اعتراض پر ڈٹے رہے ان کے اعتراض سے جان چھرانے کے لیے ہم نے کالونی برانچ کے کلرک سے بات کی تو اْس نے کہا کہ فائل پیش کرنا نقول برانچ کا کام ہے ہم نے ڈی سی صاحب کے ریڈر سے کہا کہ صاحب کو سمجھائیں کہ اصل فائل نقول برانچ سے طلب کریں۔ کالونی برانچ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ہماری بات سن کر ریڈر نے نقول برانچ سے فائل طلب کر لی۔ فائل ملنے کے بعد ڈی سی صاحب نے ایک نیا اعتراض جڑ دیا ان کے ارشاد کے مطابق فردِ ملکیت وفاقی حکومت کی ہے جو اْن کے دائرہ اختیار میں نہیں ہم نے گزارش کی کہ جنابِ والا وفاقی حکومت کے پٹہ ملکیت بنانے والے افسر کا نام بتادیں؟ مگر آپ نہیں بتا سکتے کیونکہ کوئی ایسا افسر ہے ہی نہیں۔ البتہ جب تک ون یونٹ تھا وفاقی اور صوبائی زمین کی پٹہ ملکیت الگ الگ بنتے تھے۔ مگر ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بہاولپور ڈویژن کی سرکاری زمینیں صوبائی حکومت کو دے دی گئیں اس لیے پٹہ ملکیت بنانے کا اختیار ڈی سی کو دے دیا گیا۔

موصوف کا جواب بہت ہی حیران کْن تھا فرمانے لگے کہ میرے علم میں یہ بات نہیں میں اس معاملے میں پوچھ گچھ کروں گا ہم نے سابقہ ڈی سی صاحب کا جاری کردہ پٹہ ملکیت پیش کیا اور اْنہیں فردِ ملکیت بھی دکھائی جس پر وفاقی حکومت لکھا ہوا تھا۔ ارشاد فرمایا کہ اگلی پیشی پر پٹہ ملکیت جاری کردوں گا۔ اگلی پیشی پر ڈی سی صاحب نے فرمایا کہ مکان تو ابو طیب کو الاٹ ہوا تھا تمہارے بھائی اْسے نہیں بیچ سکتے۔ عرض کی کہ جنابِ والا فائل غور سے پڑھیں وراثتی انتقال کے بعد فروخت کرنے کا حق وارثوں کو مل چکا ہے اور اب یہ مکان ابوطیب کا نہیں ہے۔

سارے اعتراضات کا مدلل جواب پا کر فرمایا کہ تمہارے بھائیوں نے جسے اپنا مکان فروخت کیا ہے اْسے بھی طلب کرنا پڑے گا ہم نے عرض کیا کہ جنابِ والا اْس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اْسے کوئی اعتراض کرنے کا حق ہے۔ سول کورٹ کے فیصلے سے اختلاف تھا تو اْس نے سیشن کورٹ میں اپیل دائر کی تھی اگر اْسے سیشن کورٹ کے فیصلے سے اختلاف ہوتا تو وہ اپیل کرتا۔ ہم نے کہا کہ جنابِ والا آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیشن جج کو جون پور کا قاضی کیوں سمجھ رہے ہیں؟ ان کے فیصلے پر عمل کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔

پیشی کے بعد ہم ڈی سی صاحب سے ملے اور عرض کیا کہ جنابِ والا آپ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں اور من حیث القوم یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ اختیارات سے تجاوز کرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا حالانکہ ہمارے آئین کے مطابق اختیارات سے تجاوز کر نے پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا ہے مگر اس سے در گزر کیا جاتا ہے۔ آپ مکان خریدنے والے فریق کو نہیں بْلا سکتے کیونکہ سیشن کورٹ کے حکم کے مطابق میرے بھائیوں کا حصہ اْسے مل چکا ہے اور میرا حصہ مجھے دے دیاگیا ہے اْصولی طور پر میرا حصہ مجھے مل جانا چاہیے تھا مگر وہ پورے مکان پر قابض رہنا چاہتا ہے میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ پٹہ ملکیت بنانے سے در گزر کیوں کر رہے ہیں؟

’’اچھا ٹھیک ہے اگلی پیشی پر فیصلہ کر دوں گا‘‘ موصوف کے رویے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ نئی پیشی پر پھر کوئی اعتراض لگا دیں گے سو ہم نے کہا جنابِ والا پٹہ ملکیت سے قبل وارثوں میں پلاٹ کی تقسیم ضروری ہے اس لیے آپ یہ فائل تحصیلدار کو ریفر کر دیں اس کے بعد ہی پٹہ ملکیت کی درخواست مناسب ہوگی۔ ڈی سی صاحب نے ہمارا مقدمہ تحصیلدار صاحب کو بھیج دیا حالانکہ یہ کام اْنہیں بہت پہلے کرنا چاہیے تھا۔

سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں کو قو م پر مسلط کرنے کا کیا جواز ہے جنہیں اپنے اختیارات کا ہی علم نہیں۔ اس معاملے میں ہم نے سینئر کلرکوں سے بات کی تھی تو اْنہوں نے کہا تھا کہ جب کوئی آفیسر مشورہ طلب کرتا ہے تو اْسے مشورہ دے دیا جاتا ہے مگر جب کوئی آفسر خود کو عقل ِ کْل سمجھتا ہے تو مشورہ دے کر اپنی بے عزتی کیوں کرائی جائے؟ المیہ یہی ہے کہ اب آنے والا ہر افسر ہی عقل ِ کْل ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی فائل تحصیلدار صاحب کو ریفر کرنے کے لیے ان کے مشورے ہی سے کیا تھا کیونکہ اِنہوں نے کہا تھا کہ جب تک آپ کے نام کی فردِ ملکیت نہیں بنتی پٹہ ملکیت بھی نہیں بن سکتا۔