بدی کا تعاقب، نیکی کی حمایت

565

نبی اکرم رسولؐ نے ہم کو اس بات کی اطلاع دی ہے کہ رمضان برکت والا مہینہ ہے۔ آپؐ نے رمضان کے لیے ’’شہر مبارک‘‘ کے الفاظ ارشاد فرمائے۔ یعنی برکتوں والا مبارک مہینہ۔ ہم جو یہ عام طور سے برکت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس لفظ سے دو باتوں کا خیال آتا ہے۔ ایک نعمت کا دوسرے ازدیادِ نعمت کا کہ نعمت میں زیادتی ہو۔ اب جو رمضان کو ’’شہر مبارک‘‘ برکتوں والا مہینہ فرمایا تو دیکھنا یہ ہے کہ اس ماہ میں وہ کون سی نعمت ہے جس میں زیادتی ہوتی ہے؟ اس ماہ کی نعمت خاص قرآن ہے جس کی تصدیق خود اللہ نے کی ہے فرمایا۔ ’’شَھْر رَمضَاَن اَلذِیْ اُنزِلَ فَیْہَ القُراٰنَّ ہُدی لّلنّاس‘‘۔

ماہ رمضان کی تعریف کی گئی کہ ’’رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں ہم نے قرآن نازل کیا، اور یہ قرآن لوگوں کے لیے ہدایت و رہنمائی ہے‘‘۔ اس آیت سے یہ طے پا گیا کہ قرآن رمضان میں نازل ہوا، اور قرآن ہی اس ماہ کی نعمت ہے اور اسی نعمت میں اضافہ کی رسول اللہ نے اطلاع دی ہے۔

نعمت قرآن میں اضافہ سے مراد ان نیکیوں اور بھلائیوں کا فروغ ہے جنہیں قرآن انسانی زندگی میں رواج دینا چاہتا ہے۔ ماہ رمضان مسلم آبادیوں کا ایک باضابطہ پروگرام ہے جس کے مطابق روزہ کے معمولات پر عمل کرنا اور اس اہتمام کے ساتھ کہ روزہ رکھنے اور روزہ کھولنے کے مقررہ اوقات میں روزہ رکھنے والے تمام مسلم عوام ایک ساتھ کھانا ختم کرکے پانی کے آخری گھونٹ پئیں اور ایک ساتھ پہلا لقمہ اٹھا کر روزہ کھولیں۔ اور روزہ رکھنے اور روزہ کھولتے وقت ایک ہی طرح اللہ کی حمد و تقدیس بیان کریں، پھر شب میں تلاوت قرآن اور سماعت، قرآن کے لیے تراویح کی جماعتوں میں شرکت کریں، دن بھر اپنے ربّ کی خوشنودی اور رضا کے لیے کھانے پینے اور تکمیل خواہشات سے رکے رہیں، غرض کھانے پینے اور بھوکے رہنے کا یہ اجتماعی عمل خودبخود ایک مسلم آبادی میں ایک ایسے ماحول کو پیدا کردیتا ہے جس میں نیکیوں اور بھلائیوں کے پروان چڑھنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوجاتے ہیں جن کو پھیلانے اور رواج دینے کے لیے ہی قرآن نازل ہوا ہے۔

ہر سال بارہ مہینوں میں یہ ایک مہینہ مسلم معاشرہ میں یقین و ایمان کو مستحکم کرنے اس کی اخلاقی حس کو بیدار کرنے اور اس کے اچھے کردار کو نشو نما دینے کے لیے آتا ہے اور اس طرح اس ماہ میں ایک ایسی فضا تیار ہوجاتی ہے جس میں پھیلتی ہوئی برائیاں سمٹ جاتی ہیں اور بدکاریوں کی بڑھتی ہوئی رفتار پر ایک بریک سا لگ جاتا ہے اور زندگی کی راہ پر نیکیوں اور بھلائیوں کو کھلے قدم نکل آنے اور بڑھنے چلے جانے کا موقع مل جاتا ہے۔ رمضان کا مہینہ برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی ایک اجتماعی مہم اور تحریک کی حیثیت رکھتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے تمام بالغ اور باکردار افراد نظم و ضبط اور ڈسپلن کے ساتھ اس اجتماعی مہم میں حصہ لیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں معاشرے کی ہر سطح پر اور خود اپنے نفس و باطن میں جہاں بھی جیسے بھی کوئی برائی چھپی و چھائی موجود ہو اسے تلاش کرکے کرید کرید کر نکال دیں۔ اس کی پیدا کردہ گندگیوں کو صاف کردیں اس کے لگائے ہوئے زخموں کا اندمال کردیں اور اس کی جگہ اس کے مقابلے میں نیکی اور بھلائی کو پیوست کردیں۔

مدینہ میں ماہ صیام کا آغاز فرماتے ہوئے رسول اللہؐ نے نیکیوں کو پھیلانے کی اس جدو جہد کو جس طرح اہم قرار دیا تھا۔ اس کا ذکر آپؐ کے دوست سیدنا سلیمان فارسیؓ نے اس طرح کیا ہے وہ روایت کرتے ہیں۔ ’’رسول اللہؐ نے شعبان کی آخری تاریخ کو تقریر فرمائی‘‘۔

’’اے لوگو! تمہارے اوپر ایک بڑا بزرگ مہینہ سایہ فگن ہوا ہے یہ بڑی برکت ولا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے زیادہ افضل ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے (دنوں کے) روزے فرض کیے ہیں۔ اور اس کی راتوں کے قیام کو نفل قرار دیا ہے۔ جس شخص نے اس مہینہ میں کوئی نیکی کر کے اللہ سے تقرب حاصل کرنے کی کوشش کی وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے دوسرے دنوں میں کوئی فرض ادا کیا یعنی اسے ایسا اجر ملے گا جیسا کہ دوسرے دنوں میں فرض ادا کرنے پر ملتا ہے، اور جس نے اس مہینہ میں فرض ادا کیا وہ ایسا ہے، جیسے دوسرے دنوں میں اس نے سترّ فرض ادا کیے۔ اور رمضان صبر، برائیوں کے مقابلے میں اور نیکیوں کے حمایت میں ثابت قدم رہنا اور قوت برداشت سے کام لینے کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے یہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے، جو شخص اس میں کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے تو اس کے گناہوں کی مغفرت اور اس کی گردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہے اور اس بندے کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اس روزہ دار کے لیے روزہ رکھنے کا ہے، بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو‘‘۔