ہماری زندگی اگر کوئی غزل ہے تو اس کی بیشتر ردیفیں اور قافیے مغرب سے آئے ہیں۔ لیکن عام غزل کے برعکس زندگی کی غزل کی ردیفیں اور قافیے صرف الفاظ سے فراہم نہیں ہوتے۔ اس میں جذبات، خیالات، احساسات، تصورات اور تجربات کی ردیفیں اور قافیے بھی ہوتے ہیں اور ان ردیفوں اور قافیوں کے اپنے تلازمات ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس امر میں حیرت کی کوئی بات نظر نہیں آتی کہ مسلم دنیا میں مغرب کے سیاسی تصورات اور خاص طور پر جمہوریت کے غلغلے کے بعد یہ خیال بہت تیزی سے عام ہوا کہ اسلام ’’مساوات‘‘ کا مذہب ہے۔ اس تصور کے زیر اثر ہمارے یہاں اب اسلامی مساوات اور مساوات محمدیہ جیسی اصطلاحات کثرت سے استعمال ہوتی ہیں اور جس سانس میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ اسلام میں عدل، احسان، رواداری اور اخوت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اسی سانس میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کہ اسلام ہمیں مساوات کا درس دیتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں صرف مغربی جمہوریت کے غلغلے کو مورد الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ یہ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔
یہ بات یقینا سو فی صد درست ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور انسان اور زندگی کے لیے جو کچھ ’’بہتر‘‘ ہے وہ اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس بات سے لوگ یہ مفہوم ازخود اخذ کرلیتے ہیں کہ وہ جسے ’’بہتر‘‘ سمجھتے ہیں یا جو انہیں بہتر نظر آتا ہے وہ بھی یقینا اسلام کا حصہ ہوگا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ’’مساوات‘‘ کا تصور انسانی ہمدردی، انسان دوستی اور اسی قسم کے بہت سے جذبات سے لبریز نظر آتا ہے۔ تمام انسان برابر ہیں اس میں ایک رومانویت بھی ہے۔ اس تصور سے بین الاقوامیت اور عالمگیریت کی بھی اچھی خاصی مقدار برآمد کی جاسکتی ہے اور کی جاتی ہے۔ اس خیال سے ’’عوام‘‘ کو بھی ’’وجد‘‘ میں لایا جاسکتا ہے۔ غرضیکہ اس تصور میں بہت کچھ مضمر ’’نظر آتا‘‘ ہے اور اس سے بہت سے کام لیے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ تصور درست ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ ہم یہ تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم مغرب سے مرعوب ہیں۔ یہ مرعوبیت اتنی ہولناک ہے کہ مغرب کی پیروی ہی میں نہیں مغرب کی تنقید یہاں تک مغرب کو دیے جانے والے ’’کوسنوں‘‘ میں بھی صاف جھلکتی ہے۔ اس کی وجہ مغرب کا ہمہ گیر غلبہ ہے اور اس غلبے کے زیر اثر ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ مغرب سے آیا ہے درست ہوگا، مکمل درست نہیں ہوگا تو نیم درست ہوگا اور چونکہ ہم اپنے روحانی اور ذہنی افلاس کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس نیم درست چیزیں بھی نہیں ہیں اس لیے ہم مغرب کی نیم درست اشیا اور تصورات کو بھی سینے سے لگا لیتے ہیں۔ ضرورت پڑتی ہے تو ذاتی تسکین کے لیے ان پر تھوڑی بہت تنقید بھی کرلیتے ہیں اور اگر گنجائش ہو تو اس پر اسلام کی مہر لگا کر اسے اپنا بنالیتے ہیں۔ مسلم دنیا میں یہ کام بڑے پیمانے پر ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ مساوات کے تصور کا مسئلہ بھی اسی ’’کام‘‘ ایک بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔ تو کیا اسلام میں مساوات کا کوئی تصور موجود نہیں؟
بلاشبہ دنیا کے تمام انسان ایک روح اور ایک جسم کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ سب برابر ہیں۔ لیکن انسان مجرد روح اور مجرد جسم نہیں رکھتے۔ ان میں استعداد بھی ہوتی ہے اور یہ ایک عام تجربے کی بات ہے کہ اس استعداد سے سب لوگ یکساں طور پر استفادہ نہیں کرپاتے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی بعض رحمتیں ایسی ہیں جو سب کے لیے ہیں ہوا سب کے لیے چلتی ہے، سورج سب کو روشنی فراہم کرتا ہے، چاند ستارے سب کے لیے روشن ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سب انسان برابر ہیں لیکن تجربہ شاہد ہے کہ بعض لوگوں کے لیے کائنات کے یہ مظاہر عام مظاہر ہی رہ جاتے ہیں اور بعض لوگوں کے لیے یہ مظاہر اللہ تعالیٰ کی نشانیاں بن جاتے ہیں۔
اسلام انسانوں کے مابین امتیازات اور عدم مساوات کو سب سے پہلے ایمان کی سطح پر ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف ایمان ہے اور دوسری طرف کفر ہے اور ایمان رکھنے والا اور کافر برابر نہیں۔ ایمان کے دائرے میں ایک جانب توحید ہے اور دوسری جانب شرک ہے۔ ایمان ہی کے دائرے میں کچھ لوگ وہ ہیں جن سے کہا جاتا ہے کہ اے ایمان والو! ایمان لائو اور کچھ لوگ وہ ہیں جن کا ایمان کامل ہوجاتا ہے۔ ایمان ہی کے دائرے میں ایک اصطلاح مسلم کی ہے اور دوسری اصطلاح مومن کی۔
اسلام ایک اور سطح پر انسانوں کے امتیازات اور ان کی عدم مساوات کو نمایاں کرتا ہے۔ قرآن میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے وہ برابر ہیں؟ پھر ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو تدبر کرتے ہیں اور تفکر کرتے ہیں۔ دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو غور نہیں کرتے۔ تدبر اور تفکر سے کام نہیں لیتے۔ علم ہی کے دائرے میں ایک اصطلاح صوفیا اور علما نے علم الیقین کی استعمال کی ہے۔ دوسری اصطلاح عین الیقین کی ہے اور ایک اصطلاح حق الیقین کی ہے۔ کیا یہ برابر اور مساوی اصطلاحیں ہیں؟
مساوات کی بات ہوتی ہے تو نبی اکرمؐ کے آخری خطبے کا ذکر ضرور ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کے مابین مساوات کی اولین اور عظیم ترین دستاویز ہے۔ کیونکہ نبی کریمؐ نے فرمایا تھا کہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں۔ بے شک حضور پاکؐ نے اپنے آخری خطبے میں رنگ و نسل اور زبان اور علاقے کی بنیاد پر بروئے کار آنے والی عصبیتوں کی جڑ کاٹ دی اور اس لیے کاٹ دی کہ یہ جڑ تھی ہی غلط۔ لیکن رسول پاک ؐ نے صرف اتنا ہی تو نہیں کہا۔ آپؐ نے اس سے زیادہ اہم بات بھی ارشاد فرمادی۔ آپؐ نے فرمایا کہ انسانوں کے مابین فرق و امتیاز کا معیار صرف ایک ہوگا، تقویٰ۔ بدقسمتی سے فی زمانہ متقی ایک ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو روزہ نماز پابندی سے ادا کرلیتا ہو اور عام زندگی میں مذہبی احکامات کا خیال رکھتا ہو، لیکن تقوے کے مفہوم کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس سے کوئی چیز بھی باہر نہیں رہتی۔ اس میں اسلام بھی ہے، ایمان بھی اور احسان بھی۔ اس میں علم بھی ہے اور حقیقی فکر بھی۔ لیکن تقوے کے بھی درجے ہیں اور کہا گیا ہے کہ جو جتنا متقی ہوگا اتنا ہی اللہ تعالیٰ کو عزیز ہوگا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو رسول اللہؐ نے اپنے آخری خطبے میں انسانوں کے مابین جھوٹے امتیازات کی جڑ کاٹ کر انہیں امتیاز کی حقیقی بنیاد فراہم کی۔ اب اس بنیاد پر اگر کوئی یہ کہے کہ اسلام مساوات کا درس دیتا ہے تو وہ نہایت محدود مفہوم میں درست اور وسیع مفہوم میں نہایت غلط بات کرتا ہے۔
اسلام کے حوالے سے دیکھا جائے تو عدم مساوات کا یہ تصور زندگی کے دوسرے دائروں میں بھی کار فرما ہے۔ مثلاً نبی کریمؐ نے فرمایا۔ میرا زمانہ سب سے بہتر ہے اور اس کے بعد وہ زمانہ جو میرے بعد آئے گا اور پھر اس کے بعد کا زمانہ۔ یہ زمانے اور تاریخ کا دائرہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے، یہ وسیع تر مفہوم میں سماجی زندگی کا دائرہ ہے، غرضیکہ ایسی ہزاوں مثالیں موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقوے سے برآمد ہونے والا فضیلت و امتیاز اور عدم مساوات کا اصول زندگی کے ایک ایک پہلو پر منطبق ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس صورت حال سے درجہ بندی کا ایک نظام ازخود وجود میں آجاتا ہے اور دیکھا جائے تو یہ نظام صرف انسانوں اور ان کی زندگیوں میں ہی نہیں پوری کائنات میں موجود ہے، کائنات میں سات آسمان موجود ہیں اور واقعہ معراج کی تفصیلات میں ہے کہ رسول اللہؐ کی پہلے آسمان پر کس نبی سے ملاقات ہوئی اور باقی آسمانوں پر کون کون سے انبیا اور رسول آپؐ سے ملے۔ کیا اس بات کا بھی کوئی مفہوم نہیں کہ جنت اور دوزخ کے سات ساتھ درجے ہیں اور جنت کا ایک درجہ وہ ہے جو صرف رسولؐ کے لیے ہے۔
ان حقائق کی اہمیت یہ ہے کہ ان کے ادراک بغیر اس روحانی، نفسیاتی اور سماجی آلودگی سے نہیں بچاسکتا جو مساوات کے مروجہ تصور کے ذریعہ پھیل رہی ہے اور جو انسانوں کے مابین قربت کے بجائے فاصلے اور محبت کے بجائے نفرت اور حقارت پیدا کررہی ہے، جس کے خلاف شعور پیدا کرنے کے لیے کوئی این جی او کارآمد نہیں رہی۔