آخری حصہ
واشنگٹن میں مقیم بنگلا دیشی صحافی مشفق الفضل انصاری نے اس بابت امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھو میلر سے ایک سوال پوچھا۔ مشفق انصاری نے پوچھا کہ ’بنگلا دیش میں ’انڈیا آوٹ‘ کی مہم زور پکڑتی جا رہی ہے۔ لوگ انڈین مصنوعات کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ کر رہے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ انڈیا پس پردہ شیخ حسینہ کو اقتدار میں برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ آپ ان حالات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟‘ اس کے جواب میں میتھو میلر نے کہا: ’ہمارے پاس اس مہم کی رپورٹس ہیں، لیکن ہم کسی صارف کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے، چاہے وہ بنگلا دیش میں ہو یا دنیا کے کسی اور حصے میں۔ لیکن ہم بنگلا دیش اور انڈیا دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی قدر کرتے ہیں اور ہم دونوں ممالک کی حکومتوں کے ساتھ کام کرتے رہیں گے‘۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین اسٹڈیز کے پروفیسر سنجے بھاردواج سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ مالدیپ کی ’انڈیا آؤٹ‘ مہم سے بنگلا دیش کی ’انڈیا آؤٹ‘ مہم کا تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ پروفیسر سنجے کہتے ہیں کہ مالدیپ ایک چھوٹا ملک ہے اور وہ پوری طرح سے ایک سنی اکثریتی خطہ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بنگلا دیش بہت بڑا ہے جہاں ہندو آبادی بھی کافی ہے۔ انہوں نے کہا مالدیپ کے صدر محمد معیزو کو اپنے سے مقابلے میں آنے والی جماعت کے اندرونی اختلافات کا بھی فائدہ پہنچے جبکہ دوسری جانب چین مالدیپ میں تقریباً ایک دہائی سے سرگرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر معیزو بھی انڈیا کے معاملے میں حساس ہیں چنانچہ جب اْن کے ایک وزیر نے انڈیا مخالف بیان دیا تھا تو انہوں نے اس کا سختی سے نوٹس لیا تھا۔ بی بی سی کی یہ رپورٹ جنوبی ایشیا کی سیاست میں بھارت کی بالادستی کے خلاف پیدا ہونے والے عوامی رجحان کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے اور ایسے میں پاکستان کو اس عوامی رجحان کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ یکطرفہ اورخود سپردگی کے انداز میں تعلقات کی بحالی اور تجارت پر مجبور کرنا خود پاکستان کی داخلی سیاست اور حالات کے لیے اچھا شگون نہیں کیونکہ پاکستانی عوام معاشی طور پر مجبور اور حالات سے عاجز ہونے کے باوجود بھارت کے ساتھ عزت اور وقار کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں اور کشمیر جیسے معاملات تو پاکستان کی داخلی سیاست اور پاک بھارت تعلقات کا ایک ایسا برمودہ تکون ہیں جس میں بڑی اور مقبول حکومتوں اور شخصیات کے ٹائی ٹینک غائب ہوتے رہے ہیں۔ پروفیسر سنجے بھاردواج نے کہا کہ ’جہاں تک بنگلا دیش کا سوال ہے تو یہ تین طرف سے زمین سے انڈیا سے گھرا ہے جبکہ چوتھی طرف خلیج بنگال ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ روایت رہی ہے اور دونوں طرف بنگالی بولنے والی برادریاں رہتی ہیں جس میں ہندو مسلم دونوں شامل ہیں۔ ان کے درمیان شادی بیاہ کے رشتے ہیں اور مشترک تہذیبی اقدار ہیں۔ ان کا ایک دوسرے پر بہت زیادہ انحصار ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’بنگلا دیش کا انحصار انڈیا پر اس قدر ہے کہ کلکتہ میں شاپنگ کیے بغیر تو انہیں عید میں بھی مزہ نہیں آتا۔ ان کے مطابق معیشت کے معاملے میں انڈیا بنگلا دیش پر منحصر ہے تو بنگلا دیش سیکورٹی اور سیاسی استحکام کے معاملے پر انڈیا پر بہت انحصار کرتا ہے۔ پرفیسر سنجے نے کہا کہ ’اگر انڈین مصنوعات کا بنگلا دیش میں بائیکاٹ کیا گیا تو مہنگائی بہت زیادہ بڑھے گی، کچن کے مصالحوں سے لے کر ادویات تک پر بنگلا دیش کا انڈیا پر انحصار ہے۔ یہاں تک کہ پیاز، لہسن، ناریل تیل، خوردنی تیل سب انہیں انڈیا سے فراہم ہوتا ہے۔ یہ صرف کپڑے کے بائیکاٹ کی بات نہیں کہ کام چل جائے یہ ان کے لیے زیست کا مسئلہ ہے اور ان کا انڈیا پر بہت زیادہ انحصار ہے‘۔ مسٹر بھاردواج کے مطابق اگرچہ بنگلا دیش تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل ہے اور وہاں چین اور جاپان کے اشتراک میں انفرا اسٹرکچر کے ترقیاتی منصوبے اور کام ہو رہے ہیں لیکن ان کے لیے پتھر سے لے کر بجری تک سب انڈیا سے جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آج کے دور میں جب معیشت بازار پر مبنی ہے تو ’بائیکاٹ‘ گھسی پٹی چیز ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو ’انڈیا آؤٹ‘ کی مہم چلا رہے ہیں وہ بنگلا دیش کی سیاست میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ حزب اختلاف کی پارٹی بی این پی والے بھی اْن کے پوری طرح حامی نہیں ہیں کیونکہ اس کا ان کو الٹا نقصان ہو سکتا ہے۔ ’یہ درست ہے کہ وہ (اپوزیشن) اپنا احیا چاہتے ہیں، لیکن یہ ان کے لیے بیک فائر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ سابق وزیر اعظم اور بی این پی کی رہنما خالدہ ضیا کے بڑے بیٹے طارق رحمان اس پارٹی کو لندن سے چلا رہے ہیں اور زمینی سطح پر ان کی موجودگی بہت کمزور ہو چکی ہے۔ ’اور ابھی سامنے کوئی انتخابات بھی نہیں ہیں، اس لیے اس کا انہیں خاطر خواہ کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ابھی بظاہر اس مہم کا مقصد سیاسی بنیادوں پر حکومت کو، معیشت کو اور ملک کو غیر مستحکم کرنا لگتا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ چین کا تو بنگلا دیش میں پہلے ہی سے عمل دخل ہے، لیکن یہ مالدیپ کی طرح کام نہیں کرے گا۔ یاد رہے کہ انڈیا اور بنگلا دیش کے درمیان 4100 کلومیٹر کی سرحد ہے اور ان کے درمیان گہرے تاریخی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات ہیں۔ اس لیے ایک مستحکم، خوشحال اور دوستانہ بنگلا دیش انڈیا کے مفاد میں ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا شیخ حسینہ کی حکومت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا نظر آ رہا ہے اور یہ کہ بنگلا دیش جنوبی ایشیا میں اس کا سب سے قریبی اور مضبوط اتحادی ہے۔