ریاست مدینہ اور پاکستان میں مماثلت اور مستقبل

653

کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ دنیا کی دو نظریاتی ریاستیں مدینہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض وجود میں آئیں اُن میں بہت ساری مماثلت پائی جاتی ہیں۔ دنیا پر معرض وجود میں آنے والی پہلی ریاست اسلامی مدینہ طیبہ کا شرف یثرب نامی بستی کو یوں حاصل ہوا کہ کفار مکہ نے مسلمان ہونے والوں پر عرصہ حیات تنگ کیا تو آپؐ نے یثرب کی بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا۔ اس بستی والوں نے دل و جان سے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا، پلکیں بچھائیں اور نبی اکرمؐ کی میزبانی کا لازوال شرف حاصل کیا تو پھر یہ بستی مدینہ طیبہ کے نام مبارک سے پکاری گئی، اور اب تک اس نام کی برکات سمیٹ رہی ہے، یہ بستی نظریہ توحید و اطاعت رسولؐ پر قائم ہوئی روز محشر تک رہے گی۔ یوں ہی بھارت جہاں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ اور ان کو اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ایک پلان کے تحت کیا جانے لگا تو قائد اعظم کی ایک آواز بلند ہوئی جو دنیا پر مسلم ریاست کے مطالبہ کی حامل تھی اور جس کا نعرہ وہی تھا جو مدینہ طیبہ کے قائم کرنے، والوں کا تھا، پاکستان کا مطلب کیا ’’لاالہ الااللہ‘‘ بس اس نعرہ کے بلند ہونے کی دیر تھی کہ کفار مکہ کے پیروکار غیر مسلم ہندو سکھ کے افراد نے وہی سلوک اپنانا شروع کردیا جو مکہ کے مسلمانوں کے ساتھ کفار کا تھا، پاکستان تائید ایزدی سے وجود میں ہزار رکاوٹوں میں بھی آگیا تو پھر بھارت کے مسلمانوں نے اسلام کی خاطر ہجرت کا فیصلہ کیا اور لٹے پٹے اربوں کھربوں کے اثاثے سب کچھ ہجرت مکہ کی طرح چھوڑ چھاڑ کر پاکستان چلے آئے اور یوں ہجرت اسلام کی خاطر کی لازوال مثال قائم ہوئی اور پھر انصار پاکستان کا شرف پانے والوں نے مہاجرین کی خدمت کا فریضہ ایسا انجام دیا کہ مدینہ کے مہاجرین و انصار کی اخوت بھائی چارہ کی یاد تازہ کردی۔

ایک اور بھی مماثلت ہجرت کے حوالے سے مدینہ اور پاکستان میں مشترکہ رہی کہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے مرحلہ میں کچھ مسلمان مکہ میں ہی رہ گئے تو بھارت سے مسلمانوں کی ہجرت کے مرحلے میں مسلمانوں کی ایک قابل الذکر تعداد بھارت ہی میں رہ گئی ان دونوں ہجرتوں کا مقصد اللہ کی دھرتی پر اللہ کا نظام قائم کرنا تھا، جس طرح مدینہ کی بستی میں پہلے دن سے غیر مسلم گروہ موجود تھے۔ یوں ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پہلے سے غیر مسلم اقلیتیں موجود تھیں۔ مدینہ منورہ میں مہاجرین و انصار کے درمیان مفادات کا تصادم تھا جو رسول اللہؐ کی بصیرت و قیادت سے رفع ہوجاتا تھا۔ پاکستان میں بھی یہی صورت حال ہے مگر افسوس ہے کہ قیادت کا فقدان ہے۔ مدینہ کی ریاست محل وقوع کے لحاظ سے ہم عصر ریاستوں کے مقابلے میں جزیرے کی حیثیت رکھتی تھی، اسی طرح پاکستان کی ریاست بھارت اور چین کے وسیع و عریض ِ خطہ میں جزیرہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس طرح اسلامی ریاست اول مدینہ کے قیام کے وقت قیصرو کسریٰ دو بڑی عالمی قوتوں کی رسہ کشی تھی قیام پاکستان کے وقت بھی امریکا اور روس عالمی طاقت بنے برسرمقابل تھے، نبرد آزما تھے، مکہ میں مسلمانوں کے خلاف بت پرستوں کی ریشہ دوانیاں تہیں تو بھارت میں بھی بت پرستوں کی شرارتوں کا مسلمانوں کو سامنا تھا، مگر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ اور پاکستان میں اتنی مماثلت کے باوجود وہ انقلاب پاکستان میں بپا کیوں نہ ہوسکا جو مدینہ طیبہ سے اٹھا اور پوری دنیا پر چھا گیا، اور اسلام ایک فاتح کی حیثیت سے اپنے قائد نبی اکرمؐ کی قیادت میں مکہ واپس حاصل کرنے میں کامیاب ٹھیرا۔ جبکہ پاکستان مشرقی حصہ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔

ماہ رمضان کے تیسرے عشرے کی 27 ویں شب جو لیلتہ القدر سے منسوب سمجھی جاتی ہے اس نزول القرآن کی شب جو رحمتوں، برکتوں سے لبریز ہے قیام پاکستان کوئی اتفاق نہیں بلکہ عطیہ خداوندی خاص تھی مگر ہم نے اس مبارک تاریخ کو طاق نیساں کرکے اپنی آزادی کی تاریخ ہجری سے ہٹا کر عیسویں کلینڈر سے جوڑ دی۔ اس ناتا توڑنے کے باوجود اللہ کی عنایتیں اس ملک پر مخیرالعقول رہیں پاکستان ایٹمی قوت کا حامل ہے، میزائل ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے تو پھر وہ مدینہ جیسا کردار کیوں ادا نہ کرسکا۔ بات آسان ہے کہ جس نظریہ کی بنیاد پر یہ عطا خداوندی ہوئی وہ پس پشت ڈال دیا اور کھوٹے سکوں سے کام لینے کی حماقت کی گئی۔ نظریے کے پشتیباں علما مسلکی ٹولیوں میں بٹ کر چندے کے دھندے میں مصروف ہوگئے، فروعی اختلافات میں الجھ کر مقصد قیام سے ہٹ کر مال کو اپنا مقصد حیات بنالیا۔ انہوں نے اسلام کا نام اپنے کام نکالنے کے لیے تو لیا مگر اسلام کی تعلیمات سے دل کھول کر روگردانی کی، اور اللہ کی عطا کی بے قدری کی، کچھ کیا بھی تو کاغذات کی صورت میں قرارداد مقاصد تیار کر ڈالی جو آئین کا دیباچہ ہی رہی اور ضیا الحق نے پھر اس کو دستور کا حصہ تو بنایا مگر عمل کا خانہ اب تک خالی ہے اور حالت یہ ہے کہ ایوان میں 63-62 کے حامل ارکان انگلیوں پر گنتے جتنے بھی نہیں لٹیرے لفنگے، حرام خور، مطلب پرستوں کا غلبہ ہے۔ جن کی گردنیں ناپی جانی چاہئیں وہ گردنوں پر سوار ہیں۔ پاکستان کو مدینہ بنانے کا دعویٰ ہوا، نظام مصطفی کی باتیں ہوئیں مگر یہ سب ہوائی فائر تھے۔ ہاں البتہ مدینہ مدینہ کی گردان سے سیاست اور تجارت خوب کی گئیں اور ہو رہی ہیں اقتدار اور مال خوب سمیٹا گیا اور ربّ کو، قوم کو دھوکا دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان بھی مدینہ طیبہ کی مماثلت سے مستفیض ہوگا۔ جی ہاں ایسا ضرور ہوگا غزوہ ہند جس کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے، یہ غزوہ پہلے پاکستان میں ان قوتوں کے خلاف ہوگا جو کفر کی طاقتوں کے آلہ کار ہیں پھر یہ خیروبرکت سے پھیلائو کرکے بھارت کا اپنا مسلم مسکن واپس ہی نہیں لے گا بلکہ پوری مسلم دنیا کی امامت کا فریضہ بھی برصغیر کے مدینہ کی صورت انجام دے گا ان شاء اللہ اور اسلام پوری دنیا میں ایک مرتبہ پھر غالب آئے گا۔