دھوکہ مگر کس کو…؟؟

439

رمضان کے مبارک مہینے کے احترام میں قیمتیں کم کردی گئی ہیں۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ’’کیا کہا آپ نے‘‘۔ انہوں نے اپنے پنجابی لہجے میں دوبارہ کہا کہ جناب ہم نے قیمتیں کم کردی ہیں رمضان المبارک کے احترام میں۔ یہ الفاظ جب میرے کانوں کے ذریعے میرے دماغ تک پہنچے تو مجھے محسوس ہوا کہ میرا دماغ مائوف ہوچکا ہے۔ یہ وہ الفاظ تھے جن کو سننے کے لیے میں ایک عرصے سے ترس رہا تھا یا بے قرار تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں زندگی کا بڑا حصہ اس طرح کے الفاظ کے انتظار میں گزار دیا۔ آج زندگی کی پچپن بہاریں دیکھنے کے بعد یہ الفاظ مجھے پاکستان سے دور ہزاروں میل کے فاصلے پر کینیڈا کے شہر مسی ساگا کی ایک پاکستانی کی مٹھائی کی دکان کے مالک کی زبانی سننے کو ملے۔

پاک سوئٹ کے مالک کے منہ سے یہ الفاظ سننے کے لیے میں نے زندگی کا بڑا حصہ گزار دیا کیونکہ اس طرح کے الفاظ سننے کے لیے بہت زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے مایوس ہوچکا تھا۔ بچپن ہی میں ان الفاظ کی تلاش پاکستان کے اخباروں سے شروع ہوئی۔ میں چھوٹی سی عمر ہی میں اخباروں میں اس ہی طرح کے الفاظ کی تلاش میں لگا رہتا مگر میں ہمیشہ ناکام رہتا۔ جنگ اخبار میں ٹارزن کی کہانی ختم کرنے کے بعد جب باقی خبروں کی طرف توجہ دیتا تو مجھے نہیں معلوم کہ کس طرح کی خبروں کی تلاش میں تھا۔ شاید یہی خبر تھی ریڈیو پر بھی میں سب کام چھوڑ کر مختلف اسٹیشن لگا کر اس خبر یا ان الفاظ کی تلاش میں میرے کان اس جستجو میں لگے رہتے، مجھے اخباروں کے بعد ریڈیو پر خبریں سننے کا بھی شوق بچپن ہی سے میرے شعور میں سوار ہوچکا تھا۔ شاید مجھے ان الفاظ ہی کی کھوج تھی۔ یہ جستجو اخباروں کی خبروں سے شروع ہو کر ریڈیو کے ایسے پروگراموں تک پہنچی جس میں شاید کوئی خبر میری اس تلاش کو پایہ تکمیل تک پہنچادے جو میرے شعور کو مطمئن کرسکے اور میں ذہنی طور پر پرسکون ہوجائوں۔ الیکٹرونک میڈیا میں مختلف نیوز پروگراموں میں ان خبروں کو تلاش کرتا رہا۔ بعد میں جب سوشل میڈیا آیا ہوا تو میری جستجو اس تک پھیلتی چلی گئی مگر میرے دل کی مراد بر نہ آسکی۔ مایوسی روز بروز بڑھتی چلی گئی اور اس مایوسی میں اس وقت مزید اضافہ ہوجاتا کہ جب اس ہی طرح کی خبریں مجھے دوسرے ملکوں کے اخباروں اور میڈیا کے ذریعے ملتی تو میرے دل میں یہ تمنا اور خواہش بڑھ جاتی کہ خدا ہمارے وطن کو بھی ایسی ہی مثبت خبروں کا مرکز بنادے اور ہر روز مجھے اپنے ملک کے سوا ایسی ہی امید افزا خبریں موصول ہوتی رہیں مگر میں ہر بار مایوس ہوجاتا جب بھی کوئی اچھی مثبت بار آور اطلاع بیرونی ذرائع سے بیرونی ملکوں کے حوالے سے مجھ تک پہنچتی تو میری اپنے ملک سے مایوسی میں اضافہ ہوجاتا۔

رمضان کی آمد کے اعلان سے ہی ذخیرہ اندوز غریبوں پر مہنگائی کا پہاڑ توڑ رہے ہیں ان غریبوں پر رحم آنے کے بجائے اس دولت کو بیرونی ممالک منتقل کرکے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ یہ دولت مند ذخیرہ اندوزی کرکے قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرتے ہیں۔ غریب کا خون چوس کر اپنے روزے افطار کرتے ہیں، کھانے پینے کی اشیا، آٹا، چینی، گھی مارکیٹ سے غائب کرکے اس حرام کمائی سے سحری میں اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور اس حرام کمائی کو ناجائز ذرائع سے بیرونی ممالک منتقل کرکے عمرے کرتے تھے۔ اس کے برخلاف اس کافر ملک کینیڈا کی حکومت اور تاجر رمضان کے احترام میں مسلمانوں کے استعمال کی مختلف اشیا کی قیمتوں کو مزید کم کرکے ان کے دلوں سے دعائیں وصول کررہے ہیں، ہر بڑے اسٹور پر رمضان کی خصوصی سیل لگی ہے تو وہ مسلمانوں کے لیے مگر اس میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں ہر فرد رمضان سیل سے سستی اشیا خرید سکتا ہے اور حکمرانوں اور دولت مندوں کو دعائیں دے رہا ہے۔ پھر کیوں نہ یہ قومیں ترقی کریں اور دنیا پر راج کریں۔

ہمارے نصیب میں تو دنیا بھر میں رسوائی ہی لکھی ہوئی ہے۔ کیونکہ دنیا بھر کی تمام بدعنوانیاں کرکے ہم اپنے آپ کو تہذیب اور اخلاق کا امین سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو ان اعلیٰ صفات کی ہستیوں سے جوڑتے ہیں جن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ان کافروں نے دنیا میں عروج حاصل کیا اور ہم صرف ان کا نام لے کر ایسے اعمال کررہے ہیں جو صرف پستی میں گرتی ہوئی قوموں ہی کا وتیرہ ہے۔ ہمارے منہ سے بڑے بڑے بھاشن اور عملی طور پر وہ کام جس سے مہذب اور اعلیٰ اخلاق والی قوموں نے خود کو الگ رکھا ہے یعنی فریب، مکاری اور منافقت جو ہماری قوم کے دولت مندوں کا کمال فن ہے جس کی بدولت ہمارے ملک کے غریبوں کا خون چوس کر اخلاق کے بھاشن دے کر یہ دنیا کے ساتھ ساتھ دو جہاں کے مالک کو بھی متاثر کردینے کا دعویٰ رکھتے ہیں، وہ بھول رہے ہیں کہ رمضان کے نمائشی روزے اور عمرے ان کو جہنم کی آگ سے محفوظ نہیں رکھ سکیں گے۔