عید کا چاند

460

رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس 9 اپریل کو طلب کیا گیا ہے، مقصد یہ ہے کہ کمیٹی شوال کا چاند دیکھے گی اور گواہوں کی شہادتوں یا خود چاند دیکھے جانے کی صورت میں عید الفطر کا اعلان کرے گی، بظاہر یہ ایک سادہ سا کام معلوم ہوتا ہے لیکن عمران خان کی حکومت میں پہلی بار اس وقت کے وفاقی وزیر فواد چودھری اس کام میں سائنس لے آئے اور انہوں نے روئت ہلال کمیٹی کے سربراہ جناب مفتی منیب الرحمن کے ساتھ اس وقت خوب ’’متھا‘‘ لگا رکھا تھا جو ہر لحاظ سے نا مناسب تھا، فواد چودھری پہلے اطلاعات و نشریات کے وزیر بنائے گئے اس کے بعد انہیں وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا انچارج بنا دیا گیا جہاں ماضی میں ہمیشہ خاموشی رہی، اعظم سواتی اور متعدد دیگر کئی نامور سیاست دان اس کے وزیر بنائے گئے تاہم جو شہرت فواد چودھری کو ملی وہ کسی اور کو نہیں ملی، عید کا چاند دیکھنے کی ذمے داری رویت ہلال کمیٹی کے سپرد ہے اور ہماری ملکی تاریخ میں متعدد بار ایسا ہوا کہ ’’بادشاہ وقت‘‘ کا فرمان مان کر چاند کا اعلان کیا گیا، پہلی بار یہ کام ایوب خان کے دور میں ہوا، ہمارے بزرگوں کی وہ نسل جس نے پورے شعور کے ساتھ ایوب خان کا دور دیکھا ہے ضرور ہمیں بتائیں گے کہ اس وقت کیوں یہ فیصلہ کیا گیا تھا، ایوب خان کو کسی نے پٹی پڑھائی کہ جمعہ کے روز عید کی نماز حکمران پر بھاری ہوتی ہے، لہٰذا فیصلہ ہوا کہ عید جمعہ کے روز نہیں ہوگی، پھر واقعی ایسا ہی ہوا کہ جیسے ایوب خان چاہتے تھے۔
حکمرانوں کو پٹی پڑھانے والے ہر دور میں مل جاتے ہیں، یہ ایسے چالاک لوگ ہوتے ہیں کہ حکمرانوں کو آسانی کے ساتھ شیشے میں اتار لیتے ہیں، عمران خان کے دور میں پیر اور پیرنی کا بہت شور غوغا رہا، سرکار ہو یا چوراہا، اقتدار کی راہ داری ہو یا بازار، ہر جگہ یہ بات زیر بحث رہی کہ حکومت تعویز دھاگوں اور تعویز گنڈوں سے چلائی جارہی ہے، عمران خان کے دور میں بھی 2020 یہ معاملہ پورے قد کے ساتھ کھڑا ہوگیا کہ عید اتوار کو ہوگی، پورے ملک میں اہل اسلام نماز عشاء کے بعد تراویح کی نماز پڑھ کر سونے کی تیاریوں میں تھے کہ رات گئے چاند نظر آجانے کا اعلان ہوا، کہ چاند نظر آگیا ہے مستند شہادت اورگواہی مل گئی لہٰذا کل عید ہوگی، در اصل صورت حال یہ تھی کہ یہ فیصلہ تعویز گنڈے کا نتیجہ تھا، شوال کے چاند کا اعلان کرنے والے مجبور تھے کہا گیا کہ پیرنی صاحبہ کہتی ہیں کہ چاند کا ہر قیمت پر اور ہر صورت اعلان کیا جائے ورنہ اقتدار کے لیے خطرات ہیں، پھر کیا تھا، اس وقت کے بادشاہ وقت نے اپنے سپہ سالار سے کہا اور سپہ سالار نے سیاست دانوں کو ہانک کر اسمبلی میں پہنچانے والی قوت سے کہا اور پھر یوں ’’وسیع تر مشاورت‘‘ کے بعد قومی اور ملی مفاد میں شوال کا چاند نظر آجانے کا اعلان کرنے کا فیصلہ ہوا، واقعی ہی اسی طرح ہوا تھا یہ کوئی من گھڑت کہانی اور کوئی افسانوی بات نہیں ہے۔
ایوب خان کے دور میں بھی ان کے دو وزیر بہت ہی متحرک تھے، ایک تھے جنرل اعظم اور دوسرے تھے جنرل برکی، یہ دونوں ایوب خان کے فواد چودھری تھے بلکہ فواد چودھری سے دو ہاتھ آگے ہی تھے، انہی دنوں ایک صاحب پنگل ریڈی نامی بھی تھے، وہ بھی زائچے نکالتے تھے، اس زمانے کے سیاسی راہنماء ان سے سیاسی زائچہ معلوم کرنے رابطہ کیا کرتے تھے، بس وہ لوگوں کو ایسی ایسی کہانی سناتے کہ سننے والا دنگ رہ جائے، چاند کے بارے میں فیصلوں میں اس وقت ان جیسوں کا بہت کردارہوا کرتا تھا، ایواب خان کے بعد ایک بار بھٹو صاحب کے دور میں یہی مسئلہ آن پڑا، پھر کیا تھا، راولپنڈی کی ایک مسجد میں نہات دلچسپ واقعہ پیش آیا کہ حکومت کے ایماء پر اہل کار ایک امام مسجد کے پاس پہنچے اور کہا کہ وہ عید کی نماز پڑھائیں، امام مسجد پریشان ہوئے اور وہ کہتے رہے کہ میں تو روزہ سے ہوں اور آج روزہ ہے، مگر اہل کار کہتے رہے کہ نہیں چاند نظر آگیا ہے لہٰذا آپ عید کی نماز پڑھائیں، لیکن مولوی صاحب نہ مانے اور پھر کسی دوسرے مولوی صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں، یوں عید کی نماز ادا کی گئی یا کرائی گئی، گزشتہ کئی سال سے ایک کوشش یہ بھی ہورہی ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہی عید کی جائے، تاہم یہ تجویز بھی ابھی تک تجویز ہی ہے اس سے اگلا درجہ حاصل نہیں کرپائی ہے، اس سال رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے بھی کافی وقت لیا گیا، بہر حال رات آٹھ بجے اعلان کیا گیا، اب شوال کا چاند دیکھنے کے لیے کمیٹی کا اجلاس 9 اپریل کو طلب کیا گیا ہے دیکھتے ہیں کہ اس روز کیا فیصلہ ہوتا ہے، بس فیصلہ یہ ہو کہ جگ ہنسائی نہ ہو، باقی خیر ہے۔